آؤشوٹس: ہٹلر دور کی خوفناک قتل گاہ
27 جنوری 2020آؤشوٹس کيمپ پولینڈ کے جنوبی شہر کراکو سے پچاس کلو میٹر مغرب میں واقع ہے۔ ہٹلر کے پولینڈ پر قبضے کے بعد 1940ء سے 1945ء تک وہاں لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سُلادیا گیا۔ ان لوگوں میں اکثریت یورپ بھر سے چن چن کر لائے گئے یہودی خاندانوں کی تھی۔
ہٹلر کی نازی آمریت کے دوران جرمن فوج نے یہودیوں سمیت دیگر سیاسی مخالفین کے لیے مختلف مقامات پر سات اذیتی مراکز قائم کیے تھے، جن میں آؤشوٹس سب سے بڑا کيمپ تھا۔
ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یاد میں تقریبات ایک ایسے وقت میں جاری ہیں جب یورپ اور امریکا میں یہودیوں کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے جرمنی کے صدر شٹائن مائر نے اسرائیل میں ہولوکاسٹ میموریل یاد واشیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ا ن کا ملک نازی دور کی برائیوں سے آج بھی محفوظ نہیں اور جرمنی کو سامیت دشمنی کے خلاف کیے گئے اقدامات پر پرکھا جائے۔
پیر کو مرکزی تقریب کی میزبانی پولینڈ کے صدر کر رہے ہیں جبکہ اس موقع پر دیگر شخصیات کے علاوہ جرمنی کے صدر بھی شرکت کریں گے۔
آؤشوٹس کیمپ میں لائے جانے والے اکثر بیمار، کمزور، عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو سیدھا گیس چیمبرز میں ڈال کر جلا دیا جاتا اور ان کی راکھ بکھیر دی جاتی۔ ہٹلر کے ان جرائم پر تحقیق کرنے والوں کا مطابق ان افراد کی تعداد نو لاکھ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے، جنہیں کیمپ میں آمد پر رجسٹر کرنے کی بجائے سیدھا گیس چیمبرز میں ڈال دیا جاتا تھا۔
اس کيمپ میں لائے جانے والے نسبتاﹰ صحت مند افراد کو قیدی بنا کر ان سے سرکار کے تعمیراتی کاموں میں دن رات زبردستی مشقت لی جاتی۔ محققین کے مطابق ایسے افراد کو رجسٹر کیا جاتا تھا اور ان کی تعداد چار لاکھ کے قریب تھی۔
سوویت یونین کی ریڈ آرمی نے 27 جنوری 1945ء کو آؤشوٹس کيمپ کو جرمن نازی فوج سے آزاد کرایا تھا۔اس موقعے پر سوویت فوج کو وہاں سے کوئی سات ہزار لاغر اور کمزور قیدی ملے تھے، جن میں پانچ سو بچے بھی شامل تھے۔
1947ء میں پولینڈ کی حکومت نے آؤشوٹس کيمپ کو ایک میوزیم اور ہٹلر کے مظالم کی یادگار کا درجہ دیا۔ تب سے دنیا بھر سے لاکھوں لوگ اس جگہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
جرمنی، اسرائیل اور دیگر یورپی ملکوں کے مطابق انسانی تاریخ کے ان مظالم کو یاد رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ دنیا میں پھر کبھی ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔