آئیوری کوسٹ میں اقتدار کی جنگ آخری مرحلے میں
2 اپریل 2011قرن افریقہ کے ملک آئیوری کوسٹ میں لاراں باگبو کی حامی فوج کو منتخب صدر وتارا کے حامی فوجیوں کی جانب سے انتہائی سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق باگبو کی حامی فوج ان کا ساتھ چھوڑ کر مخالف کیمپ کا رخ کر رہی ہے۔ اس باعث باگبو کی مشکلات میں اضافہ ہو چکا ہے۔
سابقہ دارالحکومت عابی جان سے فرانسیسی سفیر Jean-Marc Simon کے مطابق لاراں باگبو اپنی رہائش گاہ پر موجود نہیں ہیں اور امکانی طور پر انہوں نے صدارتی محل میں سکونت اختیار کی ہوئی ہے۔
بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ باگبو اس جنگ میں خود کو وتارا کے حوالے کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔
وتارا کی فوج نے آئیوری کوسٹ کے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ دونوں ادارے اب السان وتارا کے حق میں بیانات اور پیغامات نشر کر رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قبضے کی تصدیق وتارا کے ترجمان Patrick Achi نے کر دی ہے۔
عابی جان کے مغرب میں واقع Cocody ضلع میں باگبو ان دنوں مقیم تھے۔ اس علاقے میں زوردار جھڑپ کی اطلاع ہے۔ ان کی حامی فوج کی جانب سے وتارا کے فوجیوں پر بھاری گولہ باری رات گئے تک جاری رہی ہے۔ دوسری جانب فوج کے ایک افسر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ تقریباً پچاس ہزار فوجیوں نے اپنی پوزیشنوں کو چھوڑ دیا ہے۔ اب صرف باگبو کے ہمراہ صدارتی گارڈز کے علاوہ ایک یا دوہزار نوجوانوں کا دستہ بچا ہے اور وہی باگبو کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں وتارا کسی وقت عابی جان پر کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔
باگبو بین الاقوامی سطح کے علاوہ ملک کے اندر بھی تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے انتہائی قریبی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ فوج کے کئی جنرلز اب وتارا کے ساتھی ہیں۔ باگبو کی فوج کے چیف آف سٹاف جنرل Philippe Mangou ان سے علیحدہ ہو کر اپنے خاندان کے ہمراہ جنوبی افریقہ کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق باگبو کی ضد کی وجہ سے سارے ملک میں بےچینی، انتشار اور خانہ جنگی کی صورت حال ہے۔ آئیوری کوسٹ میں اس خوفناک صورت حال کا باعث گزشتہ سال نومبر کے صدارتی الیکشن ہیں، جن میں وتارا کو کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن باگبو نے ان کی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ السان وتارا کو بین الاقوامی برادری نے آئیوری کوسٹ کے منتخب صدر کے طور پرتسلیم کر رکھا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف