گزشتہ ہفتے جو سالانہ وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، اس میں یکم جولائی سے کم سے کم ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار روپے سے بڑھا کے بتیس ہزار روپے کر دی گئی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی اکثریت کے لیے پنشن کی کم ازکم حد ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کے دس ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
تو کیا اس اضافے کو ایک ایسی معیشت میں خوشخبری سمجھا جائے جس میں سالانہ بڑھوتری محض اعشاریہ انتیس فیصد ہوئی ہے۔ مہنگائی کا ماہانہ گراف اڑتیس فیصد سے اوپر جا چکا ہے، شرح سود اکیس فیصد پر برقرار ہے ، ایک ڈالر ایک برس کے دوران مزید سو روپے کھا چکا ہے اور پاکستانیوں کی فی کس آمدنی گزشتہ برس کی سترہ سو چھیاسٹھ ڈالر کی حد سے اوپر نکلنے کے بجائے پندرہ سو اڑسٹھ ڈالر تک گر گئی ہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے موجودہ سیٹ اپ پر عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس کے مقابلے میں جاری مالی سال میں ساڑھے تین ارب ڈالر کم بھیجے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت جب اس ملک کو ایک ایک ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔
زرعی شعبے میں گندم اور مکئی کی پیداوار میں اگرچہ چھ فیصد اضافہ ہوا ہے مگر پاکستان کو زرِمبادلہ فراہم کرنے والی کپاس کی فصل میں اکتالیس فیصد اور چاول کی پیداوار میں بائیس فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ صنعتی شعبہ بھی لگ بھگ تین فیصد سکڑ گیا ہے۔کار ساز کمپنیاں تو بوریا بستر گول یا چھوٹا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہی ہیں۔ اب شیل پٹرولیم نے بھی اپنی سرمایہ کاری نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ان تمام خبروں سے بیمار معیشت پر اور تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن جو بیرونی سرمایہ کار تھوڑا بہت پیسہ لگانے کے لیے سوچ بھی رہے تھے، انہوں نے اب تک یہ سوچ کے پر دوبارہ سمیٹ لیے ہوں گے کہ جب شیل جیسی بڑی کمپنی اتنے برس منافع کمانے کے بعد بھی پاؤں مزید ٹکانے میں دشواری محسوس کر رہی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
گراچی میں ایک محاورہ عام ہے ٹوپی گھمانا۔اس کا مطلب ہے کہ احمد سے ادھار لی گئی ٹوپی محمود کے سر پر رکھ دو اور جب احمد واپسی کا تقاضا کرے تو محمود کے سر پر رکھی ٹوپی احمد کے سر پے رکھ کے کسی نئے شخص کو شیشے میں اتار کے اس کی ٹوپی محمود کے سر پے رکھ دو۔
پاکستانی معیشت بھی گزشتہ ایک برس سے ٹوپی گھمانے کے اصول پر رواں ہے ۔چین سے قرضہ لے کے متحدہ عرب امارات کو واپس کر دو اور پھر امارات سے دوبارہ وہی قرضہ واپس لے کے چین کو لوٹا دو اور پھر امارات تقاضا کرے تو سعودی عرب سے قرضہ لے کے امارات کو دے دو اور پھر چین سے وہی پرانا قرضہ رول اوور کے نام سے چین سے لے کے سعودی عرب کو واپس کر کے اس سے دوبارہ وہی پیسے لے کے چین کو لوٹا دو اور اگلے دن پھر واپس لے لو۔
جب تک آپ کو پوری طرح ٹوپی گھمانے کا آرٹ سمجھ میں آئے تب تک خود آپ کے سر پر ٹوپی گھمائی جا چکی ہو گی۔جیسا کہ میں نے شروع میں مثال دی کہ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی ماہانہ شرح میں اڑتیس فیصد اضافے کے بعد غریبوں کی کم ازکم تنخواہ بڑھا کے انہیں محسوس کروایا گیا کہ سرکار کو ان کا کتنا درد ہے اور پھر اس اضافے کو پٹرول، ڈیزل اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کھا جائے گا ۔یوں سب ناراض اور سب بیک وقت خوش ۔اسے کہتے ہیں ڈارنامکس ۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران آئی ایم ایف نے شائد ہی کسی ملک کی جانب سے قرضے یا قسط کی درخواست مسترد کی ہو۔مگر ہمارے وزیرِ خزانہ جس طرح آئی ایم ایف کو کبھی آنکھیں دکھاتے ہیں ، کبھی ہر شرط مان لینے کا عندیہ دیتے ہیں اور پھر فوراً طعنہ زنی شروع کر دیتے ہیں۔اس رویے نے آئی ایم ایف کو بھی کنفیوز کر رکھا ہے ۔چنانچہ وہ کچھ شرائط پوری ہونے کے بعد مزید کچھ شرائط پیش کر دیتا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ مالی انتظام کی معیاد تیس جون کو ختم ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف نے سوا ارب ڈالر کی وہ قسط جو اکتوبر میں جاری کرنا تھی آج آٹھ مہینہ بعد بھی اسے بانس سے لٹکایا ہوا ہے۔
اسحاق ڈار ایک دن کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف دراصل پاکستان کو سری لنکا کی طرح دیوالیہ دیکھ کر ہمارےگھٹنے ٹیکوانا چاہتا ہے اور دوسری ہی سانس میں یہ پیش کش بھی کر دیتے ہیں کہ میں نے جو بجٹ پیش کیا ہے اگر آئی ایم ایف کو اس میں دی گئی رعائیتوں پر اعتراض ہے تو بجٹ سفارشات میں اب بھی رد و بدل ممکن ہے ۔
پاکستان کا معاشی بدن ٹوٹ رہا ہے اور آئی ایم ایف اس بار ایک اور بھرا ہوا سگریٹ دوبارہ دینے کو تیار نہیں کیونکہ ہر بار اسے یہی سننے کو ملتا ہے کہ خدا کی قسم یہ آخری ہے، اس کے بعد نہیں پیئوں گا۔
لہذا جس طرح کمہار کا غصہ بالاخر گدھے پر نکلتا ہے۔ بعینہہ ڈار صاحب کا غصہ عملاً پہلے سے ادھ موئے عوام پر نکل رہا ہے ۔کم ازکم تنخواہ میں سات ہزار روپے اور پنشن میں ڈیڑھ سے ساڑھے تین ہزار روپے کا اضافہ کرنے کے بعد عام آدمی کو مہنگائی کے بھیڑیے سے بھڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے ۔
اب یہ ستر فیصد پاکستانی شہریوں کا امتحان ہے کہ بتیس ہزار روپے میں چار نفوس کا کنبہ روٹی ، دوا ، چھت اور تعلیم کا خرچہ پورا کر کے دکھائیں اور پنشنرز بارہ ہزار روپے میں پورا مہینہ نکال کے دکھائے۔
اس وقت اگر یہ سماج پوری طرح بکھر نہیں پا رہا تو اس کی وجہ بس وہ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ ہے، جس سے اس کا مالک بارہ گھنٹے کی شفٹ کروانے کے بعد سرکار کی کم ازکم مقرر کردہ پچیس ہزار روپے کی تنخواہ کے واؤچر پر دستخط کروا کے اسے پندرہ سے بیس ہزار روپے دیتا ہے، کیونکہ اس سیکورٹی گارڈ نے اب تک کمپنی کی فراہم کردہ بندوق یا پستول کا رخ کسی موٹی توند والے سیٹھ کی طرف نہیں کیا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔