آئی ایم ایف سے قرض مل گیا مگر سخت اقدامات کی ضرورت برقرار
4 جولائی 2019آئی ایف ایم کے ایگزیکیٹیو بورڈ نے یہ قرضہ بدھ چھ جولائی کو منظور کیا اور اس کے تحت ایک بلین ڈالر کی رقم فوری طور پر پاکستان کو فراہم کر دی جائے گی جبکہ بقیہ رقم قسطوں میں دی جائے گی جس کے لیے طے شدہ شرائط پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے سہ ماہی بنیادوں پر اس کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس کے لیے پاکستان کو آئندہ تین برس تک سخت مالیاتی پالیسی پر عمل کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے اس پیکج کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کے بعد بین الاقوامی پارٹنر کی طرف پاکستان کو اضافی 38 بلین ڈالرز کی امداد کی فراہمی کی راہ ہموار ہو جائے گی جو آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے دورانیے میں دی جا سکے گی۔
آئی ایم ایف کے فرسٹ مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ لپٹن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ''پاکستان انتہائی نازک معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جس کے پیچھے بہت زیادہ معاشی ضروریات مگر کمزور اور غیر متوازن نمو کارفرما ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے لیے پاکستان کے انتہائی کمزور ٹیکس نظام کو بہتر کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کی طرف سے آئندہ کئی برسوں تک کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہو گی جو وزیر اعظم عمران خان پر مزید دباؤ کا سبب بن سکتی ہے۔
عمران خان گزشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آئے تھے جنہیں ورثے میں انتہائی زیادہ مسائل میں گھِری معیشت ملی۔ وہ ابتدائی طور پر تو آئی ایم ایف سے مدد حاصل کرنے سے کتراتے رہے تھے تاہم ناچار انہیں اسی کا در کھٹکٹھانا پڑا۔ خیال رہے کہ آئی ایم پاکستان کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران 20 بیل آؤٹ پیکج فراہم کر چکا ہے۔
روئٹرز کے مطابق پاکستان میں اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر صرف 7.3 بلین ڈالرز تک آن پہنچے ہیں جو محض دو ماہ کی درآمدات کی ضرورت پوری کرنے کے برابر ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے حالیہ بجٹ کا خسارہ مجموعی قومی پیدوار کے سات فیصد کے برابر ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی معیشت سدھارنے کے لیے سخت مالیاتی اقدامات پر عمل پیرا کرنا ہو گا۔
ا ب ا / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)