1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایم ایف سے مذاکرات: ’کینسر کا علاج پھر ڈسپرین سے؟‘

شمشیر حیدر
9 اکتوبر 2018

پاکستان نے معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے فیصلے پر تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/36DCU
Pakistan Währung Wechsel Dollar Rupien Geldscheine
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

عمران خان کی جماعت ماضی کی حکومتوں کو آئی ایم ایف پر انحصار کرنے کی پالیسی کے باعث تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پیر آٹھ اکتوبر کے روز عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کا اعلان کیا۔ وفاقی وزیر نے یہ واضح نہیں کیا کہ حکومت آئی ایم ایف سے کتنی رقم لینے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بیل آؤٹ پیکج کی مالیت سات تا دس بلین ڈالر کے درمیان ہو سکتی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق پاکستان کا مجموعی معاشی خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور اسلام آباد کو ہر ماہ دو بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ چوہدری کے مطابق، ’’ان عوامل نے ہمیں ریسکیو کی یکبارگی کوشش کے لیے مختلف ڈونرز کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘

وزارت خزانہ کے ایک اہلکار کے مطابق چین اور سعودی عرب جیسے اتحادی ممالک کی جانب سے قرضہ دیے جانے سے انکار کے بعد آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر تنقید

ماضی میں وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان بھی عمران خان کا ماضی میں دیا گیا ایک بیان کہ ’آئی ایم ایف سے پیسے لے کر ملک چلانا کینسر کا علاج ڈسپرین سے کرنے کے مترادف ہے‘، ری ٹوئیٹ کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے نوجوان کارکن آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کے فیصلے کے دفاع کے علاوہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھہرا رہے ہیں۔

تاہم ٹوئیٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زیادہ تر پیغامات حکومتی فیصلے پر تنقید پر مبنی ہیں۔ پاکستانی صحافی طلعت حسین سمیت کئی دیگر صارفین نے وزیر خزانہ اسد عمر کی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے خلاف ماضی میں کی گئی ٹوئیٹس کے اسکرین شاٹس شیئر کیے۔

 

ایک صارف نے لکھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا اچھنبے کی بات نہیں لیکن ’مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نے الیکشن سے پہلے بہت سے ایسے وعدے کیے تھے جن کا پورا ہونا ناممکن تھا‘۔

 

پاکستانی روپے کی قمیت میں کمی

آج اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں دس روپے سے زائد کی کمی ہوئی اور امریکی ڈالر اب تک کی بلند ترین سطح کو چھوتے ہوئے 137 روپے کا ہو گیا۔ علاوہ ازیں اسٹاک مارکیٹ میں بھی ایک ہی روز کے دوران 800 پوائنٹس کمی ہوئی۔

پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین اس صورت حال کا ذمہ دار حکومت کی جانب سے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بروقت فیصلے نہ کرنے کو قرار دے رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں