آئی ایم ایف کو انکار، پاکستانی حکومت کا وقتی سیاسی مفاد!
29 ستمبر 2011خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم پاکستان کی اتحادی حکومت سیاسی مفادات کے تحت فی الحال آئی ایم ایف کے پروگرام سے دور ہٹنا چاہ رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مارچ میں سینیٹ اور ۲۰۱۳ء میں پارلیمانی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نہیں چاہتی کہ معاشی اصلاحات کے لیے سخت اقدامات کرے اور عوام میں مقبولیت کھو دے۔
آئی ایم ایف اور پاکستانی حکومت کے مابین طے پانے والا تین سالہ پروگرام جمعہ کو ختم ہو رہا ہے۔ روئٹرز نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حکومت اس میں توسیع یا کوئی نیا پروگرام شروع کرنا نہیں چاہتی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت رواں سال اپنے بِل ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے مگر ۲۰۱۲ء کے بعد کی حکومت کی مالی صورتحال مشکلات میں گھِری دکھائی دے رہی ہے۔
۱۷ جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں پاکستان کے پاس ۱۷ اعشاریہ ۶۴ ارب ڈالر کے برابر زر مبادلہ کے ذخائر موجود تھے، جس سے پانچ تا چھ ماہ کے برآمدی سودوں کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں سے محض ۴ ارب ڈالر کے برابر کی رقم پاکستان کے مرکزی بینک کی ملکیت ہے بقیہ رقم دو فریقی یا کثیر فریقی ڈونرز سے لی گئی ہے۔ پاکستانی حکومت کو جون ۲۰۱۲ء تک آئی ایم ایف کو ایک اعشاریہ تین سات ارب ڈالر لوٹانے ہیں۔ اگرچہ اس میں کوئی بڑی مشکل حائل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی مگر ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۴ء میں بڑی بڑی رقوم آئی ایم ایف کو لوٹانے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
معاشی امور کے تجزیہ کار صائم علی کے بقول ملک کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا یقینی لگ رہا ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس جائے گا۔ ایسی صورت میں پھر پاکستان اور امریکہ کے مابین کشیدہ تعلقات سے اسلام آباد کی پوزیشن خاصی کمزور رہنے کا خدشہ ہے۔
۲۰۰۸ء میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو ۱۱ ارب ڈالر کا فنڈ حاصل کیا تھا، اس کی شرائط کو نرم رکھنے میں امریکہ کا کردار خاصا اہم خیال کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے نیا فنڈ نہ لینے کی صورت میں پاکستان کی قرض لوٹانے کی صلاحیت یا کریڈٹ ریٹنگ کم ہونے کے قوی امکانات ہیں، جس کے سبب دیگر ممالک اور ادارے بھی پھر پاکستان کو قرض دینے سے اجتناب کرسکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی ریٹنگ B3 اور B- ہے۔
انویزور سکیوریٹیز نامی مالیاتی ادارے کے ڈائریکٹر آصف قریشی کے بقول پاکستانی حکومت کی اپنی مالیاتی ساکھ بہت ہی کم ہے۔ واشنگٹن میں مقیم سیاسی امور کی ماہر اور یوریشیا گروپ نامی ادارے سے منسلک شامیلہ چودہری کا کہنا ہے کہ ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ امریکہ اب پاکستان کو نرم شرائط پر قرض لینے میں مدد دے گا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جاری تناؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ واشنگٹن حکومت پاکستانی فوج اور عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلقات پر اسلام آباد سے ناراضگی کا برملا اظہار کر چکی ہے۔ جواب میں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت عوامی سطح پر اپنے بیانات میں واضح کرچکی ہے کہ وہ پاکستانی حدود میں امریکی فوجی کارروائی برداشت نہیں کرے گے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: حماد کیانی