آبروریزی کی شکار خواتین کو زر تلافی دی جائے، بھارتی عدالت
12 فروری 2016بھارت کی انتیس ریاستوں اور سات یونینز میں جنسی حملوں اور آبروریزی کی شکار خواتین کو مہیا کی جانے والی امداد کے حوالے سے قوانین ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر مہاراشٹر میں اس تناظر میں باقاعدہ طور پر کوئی مالی تعاون ادا نہیں کیا جاتا جبکہ گوا میں ایک ملین روپے تک دیے جاتے ہیں۔ جج جسٹس ایم وائی اقبال اور ارون مشرا کے مطابق، ’’ تمام ریاستوں اور یونین اسٹیٹس کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایک ہم آہنگ اسکیم متعارف کرائیں، جس کے ذریعے متاثرین کی یکساں امداد ہو سکے۔‘‘
وکلاء اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق قدامت پسندانہ سوچ اور مردوں کے رویے کی وجہ سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین سے اکثر ان کے خاندان والے رابطے ختم کر دیتے ہیں اور ان میں سے متعدد خواتین کو معاشرے سے بھی الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ گھر بدر کر دینے والی کئی خواتین کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہونے کہ وہ ملزم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکیں۔ بھارتی عدالتی پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور ایسے میں مالی طور پر کمزور افراد کے لیے انصاف کے حصول کی جنگ آسان نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یقیناً کوئی بڑی سے بڑی رقم بھی متاثرہ افراد کی عزت وقار اور ان کے اعتماد کو پہنچنے والی ٹھیس کی تلافی نہیں کر سکتی۔ ’’اسی طرح پیسے سے ان کے ذہن کو پہنچنے والی نقصان اور ان کے درد کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ مالی تعاون صرف بحالی کے مقصد کے لیے دیا جا رہا ہے‘‘۔
عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ آبروریزی کے ایک مقدمے میں سزا یافتہ مجرم کی درخواست کے جواب میں سنایا گیا ہے۔ ریاست چھتیس گڑھ سے تعلق رکھنے والے اس مجرم نے اپنی سات سالہ سزا کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک نابینا لڑکی سے شادی کا جھوٹا وعدہ کر کے اس کا جنسی استحصال کیا تھا۔ عدالت نے مجرم کی درخواست کو رد کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو زندگی بھر کے لیے آٹھ ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں۔
بھارت میں 2014ء کے دوران جنسی زیادتی کے واقعات میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔