آبنائے ہرمز میں حفاظتی فوجی مشن پوری طرح فعال، امریکی حکومت
29 اگست 2019واشنگٹن سے جمعرات انتیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق امریکی وزارت دفاع کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن کی قیادت میں اس عسکری مشن نے اب پوری طرح کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے صحافیوں کو بتایا کہ اس عسکری مشن میں واشنگٹن کے بحری دستوں کے علاوہ برطانیہ، آسٹریلیا اور بحرین بھی شامل ہو چکے ہیں۔
ایسپر کے مطابق اس بحری حفاظتی مشن کو 'آپریشن سینٹینل‘ کا نام دیا گیا ہے اور امریکا کئی دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی اس بارے میں بات چیت میں مصروف ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ کئی اور ممالک بھی اس فوجی مشن میں شامل ہو جائیں گے۔
'آپریشن سینٹینل‘ کا مقصد
آبنائے ہرمز کی خاص بات یہ ہے کہ تجارتی جہاز رانی، بالخصوص تیل اور گیس کی بین الاقوامی تجارت کے لیے یہ دنیا کے اہم ترین سمندری راستوں میں سے ایک ہے۔ مارک ایسپر کے الفاظ میں، ''آپریشن سینٹینل کا مقصد اس آبنائے میں آزادانہ اور محفوظ کمرشل شپنگ کو یقینی بنانا ہے۔‘‘
ساتھ ہی امریکی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا، ''اس فوجی مشن کا مقصد ایسی کسی اشتعال انگیزی کو بھی روکنا ہے، جو پھیل کر اس خطے میں کسی بڑے تنازعے کی وجہ بن سکتی ہو۔‘‘ انہوں نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ امریکا ایران کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں چاہتا۔
امریکی وزیر دفاع نے اس بارے میں کوئی ٹھوس یا واضح اعداد و شمار پیش نہ کیے کہ اس فوجی مشن میں اب تک کتنے بحری جہاز یا فوجی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ بات تاہم مسلمہ ہے کہ برطانیہ اس مشن میں شمولیت کے لیے اپنے دو جنگی بحری جہاز خلیج کی طرف بھیج چکا ہے۔
جرمنی کا اس مشن میں شمولیت سے انکار
امریکا اور ایران کے مابین موجودہ کشیدگی کی وجہ سے خلیج فارس میں خاص طور پر آبنائے ہرمز کے علاقے میں سلامتی کی صورت حال سے متعلق تشویش بہت زیادہ ہو چکی ہے اور حالات پہلے کی نسبت کافی خراب ہیں۔
امریکا نے جرمنی سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ بھی اس بحری حفاظتی مشن میں شامل ہو جائے۔ لیکن برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت نے اس امریکی فوجی مشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے برعکس جرمنی نے اپنی یہ کوششیں تیز کر دی تھیں کہ یورپی یونین کو خطے میں اپنا ایک علیحدہ مبصر مشن بھیجنا چاہیے۔
امریکام کا الزام ہے کہ ایران مبینہ طور پر خلیج فارس کے علاقے میں تجارتی بحری جہازوں پر کیے جانے والے ان متعدد حملوں میں ملوث رہا ہے، جو حالیہ چند مہینوں کے دوران دیکھنے میں آ چکے ہیں۔ اس کے برعکس ایران اپنے خلاف ان الزامات کی پرزور تردید کرتا ہے اور اس نے ان مبینہ حملوں کی بھرپور مذمت بھی کی تھی۔
م م / ک م / ڈی پی اے