آخری آرام گاہ: جرمنی میں تدفین کی روایات
جرمنی میں کفن دفن کے حوالے سے سخت روایت ہیں اور اُن پر کاربند رہنا لازمی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس فوٹو گیلری میں مختلف روایات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
آخری آرام گاہ
جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2016 میں نو لاکھ سے زائد کی اموات ہوئی تھی۔ جرمنی میں قریب سبھی شہروں اور قصبوں میں قبرستان موجود ہیں۔ دوسری جانب تدفین کے طریقوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس میں خاص طور پر قبرستان میں روایتی ہریالی والی جگہوں سے اجتناب کیا جانے لگا ہے۔
تدفین کے روایتی طریقے
کفن دفن مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث قبرستانوں میں مخصوص خاندانی جگہوں پر سرمایہ کاری میں کمی ہو چکی ہے۔ جرمن شہروں کے رہائشی کم خرچ تدفین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس میں بھی تابوت یا جلائے گئے مردے کی راکھ کے لیے مخصوص برتن ضروری ہے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کے بعد راکھ سربمہر برتن میں محفوظ کر کے کسی قبرستان میں دفن کرنا بھی اہم ہے۔
بعد از موت
جرمنی میں جلائے گئے مردے کی راکھ رکھنے کے لیے خوبصورت نقش و نگار سے مزین اور وقت کے ساتھ مٹی میں شامل ہونے والے خاص برتن بھی اب اہم ہو چکے ہے۔ شہروں میں مردہ جلانے کی روایت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ سن 2015 میں جرمن ریاست بریمن نے بعد از موت تدفین کے ضابطوں میں نرمی پیدا کی اور اس کے تحت اہل خانہ اپنے جلائے ہوئے مردے کی راکھ اپنے مکان کے عقبی باغیچے میں پھیلا سکتے ہیں۔
اپنی جڑوں کی جانب واپسی
جرمنی میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ مردے کی راکھ بتدریج مٹی میں شامل ہونے والے برتن میں رکھ کر کسی درخت کی جڑوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگل میں مخصوص علاقے مختص ہیں۔ ایسی تدفین کے لیے کوئی نگران مقرر نہیں کیا جاتا۔ جنگل میں خاکدان رکھنے کے مقام پرشمعیں جلانا اور پھول رکھنے کی ممانعت ہے۔ یہ کھلا مقام قدرتی اور پرسکون محسوس خیال کیا جاتا ہے۔
تابوت سازی
جرمنی میں تابوت سازی کے لیے مخصوص ورکشاپ قائم ہیں۔ اس تصویر میں لاعلاج مریضوں کے مرکز کی انچارج لیڈیا رؤڈر کے ساتھ تابوت پر نقش و نگار کی آرٹسٹ آنا ایڈم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ سے تابوت تیار کرتی ہیں۔ اس کی قیمت چند سو یورو ہے جو مارکیٹ میں دستیاب تابوت کی قیمت سے بہت کم ہے۔ جرمن مارکیٹ میں تابوت کی قیمتیں ایک ہزار یورو سے شروع ہوتی ہیں۔
تدفین سے قبل رحلت پانے والے کا دیدار
یورپ میں رحلت پانے والے خاندان کے لوگ انتہائی قریبی احباب کے لیے تابوت کو دفن کرنے سے قبل کھولتے ہیں اور چہرے کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ کئی یورپی ممالک میں مقبول ہے لیکن جرمنی میں اس کی روایت قدرے کم ہے۔
اظہار تعزیت اور ہمدردی
جرمن محکمہ ڈاک نے رحلت کے موقع پر اظہار افسوس کے روایتی خط یا پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کے حوالے سے خصوصی اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی تخلیق کیے ہیں۔ تدفین کی رسومات میں شرکت کے لیے بھی خصوصی پوسٹ کارڈ دستیاب ہیں۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ غم زدہ خاندان کو پھول دینا بہتر ہے یا عطیات دیے جائیں۔
تدفین، سماجی رویے اور طعام
جرمنی میں تدفین اور دعائیہ عبادت کے بعد خصوصی دعوت پر قریبی دوست احباب اور رشتہ داروں کو دعوتِ طعام بھی دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں کافی، سینڈوچز اور کیک کھانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر رحلت پا جانے والے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسی دعوت طعام میں روایتی اسنیک Leichenschmaus بھی تیار کر کے رکھا جاتا ہے۔
گورکن بننے کا علم
جرمن حکومت نے سن 2005 میں مستقبل کے گورکنوں کی تربیت پر توجہ دینی شروع کی۔ اس مقصد کے لیے ایک مرکز باویرا کے شہر میونسٹر اشٹڈ میں قائم کیا گیا۔ خصوصی ماہر ٹیچرز گورکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس مرکز میں تربیت کا دورانیہ تین برس پر محیط ہے۔ کورس میں تدفین کی رسومات کے علاوہ غم زدہ خاندانوں کو تسلی تشفی دینے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اسی مرکز میں چین اور روس کے گورکن بھی اعلیٰ تربیت کے لیے آتے ہیں۔
گورکنی کے عملی پہلو
تدفین کے سلسلے میں خاص طور قبر کھودنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قبر کھودنے میں اطراف کی دیواروں کا خاص انداز میں تیار کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ قبر کے کتبے کے بوجھ یا بارش کے پانی سے منہدم نہ ہو جائے۔ اسی طرح مردے کی خاک والے برتن کو کس انداز میں قبر میں رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے باویرین انڈرٹیکرز ایسوسی ایشن نے میونسٹراشٹڈ میں سن 1994 سے تربیتی قبرستان قائم رکھا ہے۔
تدفین کی رسومات اور ثقافت
جرمن شہر کاسل میں تدفین سے جڑی رسومات کا ایک خاص عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر سن 1992 میں کھولا گیا تھا۔ اس میں قبر، قبرستان اور کفن دفن کے حوالے سے معلومات میسر ہیں۔ تابوت لے جانے والی جدید کار کے ساتھ اسی میوزیم سے حاصل کی گئی تصویر میں سن 1880 میں میت لے جانی گھوڑا گاڑی دکھائی گئی ہے۔