آرمی چیف کا بیان اور سیاسی حلقوں میں جاری بحث
21 اکتوبر 2020آرمی چیف نے زیرِ بحث بیان کل بروز منگل بیس اکتوبر کو کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ کانفرنس میں سول اور فوجی افراد کو امن و استحکام کے لئے ان کی قربانیوں پر خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا اوراس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے یہ بھی کہا ہے، "ہم نے امن و استحکام کو حاصل کرنے کے لئے ایک بھاری قیمت ادا کی ہے اور عدم استحکام کی کسی بھی کوشش کا بھر پور جواب دیا جائے۔"
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ بیان خطے کی اسٹریجک اور سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں دیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ کانفرنس میں جیو اسٹریجک، خطے اور نیشنل سیکیورٹی پر بات چیت ہوئی۔ بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حالیہ واقعات کا بھی جامع جائزہ لیا گیا۔ اس کے باوجود بعض سیاسی جماعتیں اور کچھ مبصرین اسے دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ عدم استحکام کی کوشش کرنے والے عناصرکون ہیں۔
عدم استحکام کی کون کوشش کررہا ہے
معروف دفاعی تجزیہ نگار ریٹاٗرڈ جنرل غلام مصطفیٰ کے خیال میں جو لوگ سپاہیوں اور فوج کے افسران کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ہی اس عدم استحکام کی سازش میں ملوث ہیں۔ "ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پی ٹی ایم اور محمود اچکزئی جیسے لوگ ریاست کے خلاف لوگوں کوبھڑکا کے اور ریاست مخالف پرو پیگنڈا کر کے ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سابق اعلیٰ فوجی افسر کی مطابق ایسل لوگوں کی اشتعال انگیز حرکتوں سے کچھ عناصر ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں، جنہیں را اور افغان خفیہ ایجنسی کی مدد بھی مل جائے گی۔ بالکل اسی طرح نوازشریف کی تقریر پر بھی پاکستانی عوام کو بہت تشویش ہے کیونکہ اس نے سپاہی اور افسران کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جس کو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔"
پی ٹی آئی حزب اختلاف کے خلاف کس حد تک جائے گی؟
مزارِ جناح پر نعرے بازی، کیپٹن صفدر گرفتار
نواز شریف خود فوج کے ذریعے ہی اقتدار تک پہنچے، عمران خان
ریٹائرڈ جنرل غلام مصطفیٰ کا مزید کہنا تھا کہ فوج نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گردوں کی کمر توڑی ہے۔ "لیکن آج ریاست مخالف اور فوج مخالف بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ گوجرانوالہ طرز کی تقریریں اب مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ایسی تقریروں اور احتجاجوں کو روکنا چاہیے کیونکہ ریاست مخالف افراد کی حرکات سے پاکستان مخالف عناصر مضبوط ہورہے ہیں۔"
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا موقف
کچھ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ عدم استحکام کا یہ بیان حزب اختلاف کے حوالے سے ہے، جس نے حکومت مخالف احتجاج شروع کیا ہوا ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی حالات میں یہ بیان نا مناسب ہے۔ "عوام اس بیان کی تشریح یوں کرین گے کہ یہ عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو ایک دھمکی ہے۔ جو عوام کی رائے ہے وہی میری رائے ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کی قیادت کسی سے نہیں ڈرتی۔ ہم نے جمہوریت کی بحالی اور آئین کی برتری کے لئے جدوجہد شروع کی ہے، جس میں ابھی مزید شدت آئے گی۔"
ان کا مذید کہنا تھا عدم استحکام کی کوششیں وہ کر رہے ہیں، جو عوام پر مصنوعی سیاسی قیادتیں مسلط کرتے ہیں۔ "جو آئی جی سندھ کو اغواء کرتے ہیں۔ جو کٹھ پتلی حکمران لاتے ہیں۔ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔ آئین کو پامال کرتے ہیں۔ اگر ہمیں عدم استحکام سے بچنا ہے تو ہمیں شمالی وزیرستان میں ابھرتے ہوئی ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ کو روکنا ہوگا۔ وہاں پر معصوم لوگوں کے قتل کو روکنا ہوں گے۔"
مسلم لیگ ن کا موقف
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "عدم استحکام تو یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے پولیس چیف کو اغواء کیا جائے۔ اسلام آباد سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے احکامات صادر کئے جائیں۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے کیپٹن صفدر کو مریم نواز شریف کی موجودگی میں گرفتار کیا جائے۔ ان کے کمرے کا دروازہ توڑا جائے اور اس پورے معاملے میں وزیر اعظم کہیں نظر نہ آئے اور وفاقی وزراء اس تحقیقات پر تنقید کریں، جس کا حکم آرمی چیف نے دیا تھا۔"
اندورنی حالات کی طرف اشارہ
معروف سیاسی مبصر اور ایریا اسٹڈی سینیٹرپشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کا بیان ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے حوالے سے ہے۔ "اس بیان سے پہلے ہی طاقتور حلقوں کی طرف سے گوجرانوالہ جلسے کا ردعمل آ گیا تھا۔ اس جلسے میں نوازشریف کی دھواں دھار تقریر کا عوام نے خوب خیر مقدم کیا لیکن کچھ حلقوں میں اس تقریر کو انتہائی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور پھر کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ اس طرح کی تقریریں برداشت نہیں کی جائین گی۔ میرا خیال ہے کہ نوازشریف کوئٹہ اور پشارو کے جلسوں سے خطاب نہیں کریں گے جب کہ مریم بھی اپنے رویے میں نرمی لے کر آئیںگی۔"