آلُو سبزی کے بارے میں آگاہی کا عالمی سال
7 جون 2008آلُو وہ سبزی ہے جو بنیادی خوراک یعنی چاول، گندم اور مکئی کے بعد اہمیت رکھتی ہے۔ خوراک کےموجودہ عالمی بحران کے تناظر میں اِس کی اہمیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
اِسی باعث رواں سال کو آلُو کا سال قرار دیا جا چکا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ اِس سبزی کے بارے میں بڑے پیمانے پر آگاہی عام کرنا ہے۔ اِس سے پہلے سن دو ہزار چار کو چاول کے سال کے طور پر منایا جا چکا ہے۔
خوراک کے عالمی کے عالمی منظر نامے پر حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں آلُو کی کاشت کو ایک نیا رنگ دستیاب ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی حکومتیں اِس کی کاشت پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔
اِس کی مختلف چودہ سے زائد اقسام دستیاب ہیں۔ جینیاتی اختراع شدہ یا جینے ٹی کلی موڈی فائیڈ آلُو کی ایک قسم عام ہے۔ اب فلپائن کی Benguet State University کے محققین نے اعلان کیا ہے کہ وہ چار مزید اقسام کو عام کرنے والے ہیں۔
چین آلُو کی کاشت میں سب سے آگے ہے۔ جو سات کروڑ ٹن سے زائد یہ سبزی پُگاتا ہے۔ اُس کے بعد روس اور بھارت ہیں۔ آلُو کی پیداوار میں یُوکرائن، امریکہ اور جرمنی بھی اہم مقام کےحامل ہیں۔
سن اُنیس سو نوے کی دہائی کے آغاز تک آلُو کی پیداوار اور کھپت زیادہ تر یورپ ، شمالی امریکہ اور روس میں تصور کی جاتی تھی۔ لیکن اب ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اِس کی کھپت تیس ملیّن ٹن سے ایک سو پینسٹھ ملیّن ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
پہلی بار ترقی پذیز ممالک ترقی یافتہ ملکوں پر اِس کی پیداوار میں بازی لے گئےہیں۔ دنیا کا ایک تہائی آلُو چین اور بھارت میں کاشت کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آلُو سبزی کا اصل وطن جنوبی امریکہ ہے۔ بعض مزید فوکس کرتےہوئے اِس کے اصل وطن کو پیرو اور بولیویا بیان کرتےہیں اور اِس میں مزید وضاحت کرتےہوئے اِن دونوں ملکوں کی سرحد پر واقع براعظم جنوبی امریکہ کی سب سے بڑی جھیل Lake Titicaca کو قرار دیتےہیں۔
آلُو قدرتی طور پر Lake Titicaca کناروں پر دستیاب ہوا تھا۔ ذائقہ پسنذد آنے پر وہاں کے باشندوں نے اِس کی کاشت شروع کردی اور پھر یہ خوراک کی حثیت اختیار کرتا چلا گیا۔
ایشیا میں ایک وسیع علاقہ اِس کی کاشت کے لیئے مختص ہے۔ اِسی طرح یورپ میں بھی اِس کوکاشت کرنےکےعلاوہ لوگ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ جرمن بھی اِس سبزی کو بہت پسند کرتےہیں اور بعض کا تو آلُو من بھاتا کھاجا ہے۔
اُردو ادب میں بھی اِس سبزی کی مناسبت سےکئی محاورے بھی مستعمل ہیں۔ ایک پھل کو آلُو بخارہ کہا جاتا ہے۔ جو شاید وسطی ایشیا شہر بخارہ شے منسوب ہے۔ لڑکوں کا ایک کھیل آلُو شفتالُو بھی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
لاطینی امریکہ کے ملک پیرو میں تو آلُو ہر کھانے کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایکوا ڈور میں آلُو بنیادی خوراک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو مختلی طریقے سے کھایا جاتا ہے۔ ایک مشہور سوپ آلُو، سکواش اور پنیر کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔
اِسی طرح چلی کے جزیرے Chiloé میں یہ سبزی ہر ڈِش میں لازماً شامل کی جاتی ہے۔
اگر یورپ میں دیکھیں تو مچھلی کے ساتھ آلُر کھانا انتہائی مقبول ہے۔
سکاٹ لینڈ میں اُبلےآلُووں کو کچل کر کھانا بہت مرغوب ہے۔ انگلینڈ میں دھنیے اور مکھن کے ساتھ آلُو کو پکانا بہت مقبول ہے۔ ایک ڈِش کا نامShepherd’s Pie کہا جاتا ہے۔
آئر لینڈ میں بند گوبھی اور پیاز کے ساتھ اِن کو کھانا بہت پسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔Boxy Pancakes بھی آلُووں سے تیار کیئے جاتے ہیں جو سارے آئر لینڈ میں کھائے جاتے ہیں۔
شمالی یورپی ملکوں ڈنمارک، ناروے سویڈن اور فن لینڈ میں بالٹک سمندر کی مچھلیHerringکے ساتھ کھانا خاصا اہم ہے۔ مغربی یورپی ملک بیلجئم کے لوگوں کو آلُو کے قتلے بہت پسند ہیں۔ ساری دنیا میں، فرانس کی مناسبت سے فرنچ فرائز تو سبھی پہچانتے اور کھاتےہیں۔
ہالینڈ کے باشندہ سبزی کے ساتھ کچلے آلُو بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اٹلی میں اِن سے خاص انداز کی سوّیاں یا پاستا بنایا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال مشرقی یورپی ملکوں کی ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں آلُو کئی انداز میں کھائے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں تو حکومت نے آلُو کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ اگر مشرق بعید میں دیکھیں تو وہاں بھی صورت حال مختلف نہیبں ہے۔