آپریشن میں عجلت کے نقصانات ہو سکتے ہیں، سرتاج عزیز
1 جولائی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سرتاج عزیز کے اس بیان کا مقصد دراصل پاکستان پر کیے جانے والے ان اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش ہے جن کے مطابق پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف مناسب کریک ڈاؤن نہیں کیا اور یہ کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان رہنماؤں کو پناہ فراہم کیے ہوئے ہے۔ یہ بات مئی میں ہونے والے اُس امریکی ڈرون حملے کے بعد اور بھی واضح ہوئی تھی جس میں افغان طالبان کا سربراہ مُلا منصور اختر ہلاک ہو گیا تھا۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وہ رواں اختتام ہفتہ پر جب امریکی گانگریس کے وفد سے ملاقات کریں گے تو وہ عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستانی کارروائیوں کے ریکارڈ کا دفاع کریں گے۔ اس وفد کی سربراہی امریکی سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مککین کریں گے۔
افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں ہم نے تین برسوں کے دوران جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ زبردست ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنی گفتگو میں سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا، ’’مگر اس چیز میں خطرات موجود ہیں کہ ہم کس قدر آگے جاتے ہیں، کس ترتیب میں ہمیں یہ کارروائی کرنی چاہیے اور اس کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے۔‘‘
ضرب عضب کے نام سے پاکستانی فوج کی طرف سے کیے جانے والے آپریشن میں پاکستانی طالبان کے علاوہ دیگر شدت پسند گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روئٹرز کے مطابق اسی علاقے میں افغان طالبان کے بعض عناصر اور حقانی نیٹ ورک بھی موجود ہے جن کے حملوں کا ہدف سرحد پار امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت ہے۔
ناقدین، خاص طور پر امریکی کانگریس سے تعلق رکھنے والے، کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایسے عسکریت پسندوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کی جو صرف افغانستان میں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔
سرتاج عزیز کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ فوج نے ’’اچھے اور بُرے طالبان کی تمیز کیے بغیر اپنی کارروائیاں کی ہیں‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی وقت میں سب کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرنے سے پاکستانی فوج کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم فیصلہ کُن انداز میں بڑھیں، مگر ایک خاص رفتار سے جو ہماری صلاحیت کے مطابق ہو، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا رد عمل کو روکا جا سکے۔‘‘