پھر اگلے سات برس میں ایک صدارتی ریفرنڈم، دو بار بلدیاتی انتخابات اور ایک عدد غیر جماعتی قومی انتخابی ڈرامہ دیکھنے کو ملا، جس کے تلخ پھل ہم آج تک کسی نہ کسی شکل میں زہر مار کر رہے ہیں۔ مخالفین کا ضیا الحق پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ خود کو نفاذ شریعت کا داعی کہنے کے باوجود قول و فعل میں تضاد ہے یعنی وعدہ کچھ عمل کچھ۔
اس دور میں پیپلز پارٹی بوجوہ پوری طرح ضیا آمریت کے نشانے پر تھی۔ اسے توڑنے کے لیے مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرست تنظیموں کی بھی پوری حوصلہ افزائی ہوئی۔ ( غلط یا صحیح ) ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے گڑھ یعنی سندھ کے شہری علاقوں میں اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایم کیو ایم کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی لیکن پیپلز پارٹی ضیا آمریت کے موازنے میں جمہوریت کا استعارہ سمجھی جاتی رہی۔
آج چار عشرے گزرنے کے بعد حالات اور کردار بری طرح بدل گئے۔ اب پیپلز پارٹی سٹیٹس کو کا استعارہ ہے اور جس تیسری طاقت یعنی تحریکِ انصاف کو دو بڑی روایتی جماعتوں ( نون اور پی پی پی ) کا زور توڑنے کے لیے بارہ برس پہلے میدان میں اتارا گیا، آج وہی تحریکِ انصاف انیس سو اسی کی دہائی کی پیپلز پارٹی کی طرح اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔
جس طرح انیس سو اسی کے عشرے میں پیپلز پارٹی کو لگام ڈالنے کے لیے مسلسل پولٹیکل انجینئرنگ کی گئی، بالکل اسی طرح طے شدہ دائرے سے نکلی ہوئی تحریک انصاف کو قابو کرنے کے لیے ری الائنمنٹ جاری ہے۔
جس طرح دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے قبل نون لیگ کا راستہ روکنے کے لیے موسمی پرندوں اور نام نہاد الیکٹ ایبلز کو ریوڑ کی صورت بنی گالہ کی جانب ہنکال کر ان کی گردنوں میں پی ٹی آئی کا پرچمی پٹہ ڈلوا گیا، بالکل اسی انداز میں بلوچستان میں چار برس قبل تشکیل دی گئی مصنوعی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ ) کے ارکان اور دیگر آزاد ارکان اب پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کو لیز پر دیے جا رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں دو ہزار اٹھارہ میں الیکٹ ایبلز کو لشٹم پشٹم اکھٹا کر کے پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالا گیا، اب ایسے ہی ایلکٹ ایبلز کو اسی انداز میں جمع کر کے عمران مخالف بند باندھنے کے کام میں لایا جا رہا ہے جبکہ گجرات کے چوہدری برادران وہ سیاسی مقناطیس ہے، جسے پی ٹی آئی کی پشت سے چپکا دیا گیا ہے۔
کراچی میں پچھلے سات برس سے کسی سیف ہاؤس کے گیرج میں کھڑی ایم کیو ایم کی کھٹارا کے کل پرزے پھر سے جوڑ کے اسے پیپلز پارٹی کی بس کے پیچھے لگا کے شاہراہ انتخابات پر پارک کرنے کی آخری کوشش ہو رہی ہے تاکہ پی ٹی آئی کا اگر وسطی پنجاب یا خیبر پختون خوا میں راستہ نہ روکا جا سکے تو کم ازکم کراچی میں قومی اسمبلی کی اکیس نشستوں کے ذریعے ہی اس کی ممکنہ اکثریت کو سیندھ لگائی جا سکے۔
اس کا تازہ ثبوت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو چوتھی بار ملتوی کرانے کی کوشش ہے۔
جس طرح ضیا الحق نے کسی نہ کسی بہانے عام انتخابات کے عمل کو مسلسل پس پشت ڈال کے رکھا۔ اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل ہونے والے اختیارات کو نچلی سطح پر ناپسندیدہ جماعتوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے گزشتہ جولائی سے اب تک اپنی جونیئر پارٹنر ایم کیو ایم کے ساتھ نورا کشتی کرتے ہوئے تین بار انتخابات ملتوی کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
اب جبکہ پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں اور الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے چوتھے التوا میں فریق بننے سے صاف انکار کر دیا ہے، حالات پر پولیٹیکل انجینئرز کی گرفت بظاہر ڈھیلی پڑ رہی ہے۔
ملک کے نازک اقتصادی حالات نے بھی انجینئرز کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں مگر ”اب اپنے ہاتھ سیاسی چولہے پر دوبارہ نہیں جلائیں گے‘‘ کے کھلم کھلا باجوائی وعدے کے باوجود پرانے اطوار اور نشے کہاں آسانی سے چھوٹتے ہیں؟
پچھلے کم از کم ستر برس سے ایک ہی ماڈل ہر بار ناکام ہونے کے باوجود آزمایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر بار جمہوری عمل اور خود ریاست کی نیت اور اہلیت پر عوامی اعتبار دس قدم اور پیچھے چلا جاتا ہے۔ مجھ جیسے قنوطیوں کو کسی بھی طرح کی انجنئرنگ پر قطعاً اعتراض نہیں لیکن کم ازکم اتنے وسائل اور توانائیاں خرچ کر کے کبھی تو کچھ تو نیا تجربہ سامنے آئے۔
انیس سو پچاس کی دہائی کی قومی جماعتوں کو توڑنے کے لئے کنونشن مسلم لیگ پیدا کی گئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا زور توڑنے کے لئے نیپ کے بھاشانی دھڑے اور مغربی پاکستان میں پی پی پی اور نیپ کو حد میں رکھنے کے لئے قیوم لیگ، جماعتِ اسلامی، جے یوپی، جے یو آئی وغیرہ کی حوصلہ افزائی کی گئی مگر اس تجربے نے ملک ہی توڑ دیا۔
ستتر میں پیپلز پارٹی کو لگام دینے کے لئے نو جماعتی قومی اتحاد بنوایا گیا۔ انیس سو اٹھاسی میں اسی مقصد کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا مگر پیپلز پارٹی دوسری بار بھی آ کے رہی۔
جو ایم کیو ایم انیس سو اسی کے عشرے میں پیپپلز پارٹی کا شہری ووٹ بینک توڑنے کے لئے بنوائی گئی تھی، اسی ایم کیو ایم کو لگام دینے کے لئے جون انیس سو بانوے میں کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم حقیقی متعارف کروائی گئی۔
جس پیپلز پارٹی کو اپنی حد میں رکھنے کے لئے نواز شریف کو متبادل کے طور پر ابھارا گیا تھا، اسی نواز شریف کے پر کاٹنے کے لئے دو ہزار دو میں مسلم لیگ ق پیدا کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ سیکولر مزاج پرویز مشرف نے اسلامی جمہوری اتحاد پر بھی ہاتھ رکھا۔
پھر پی پی، ن اور دیگر روایتی جماعتوں کی سیاست سے چھٹکارا پانے کے لئے پی ٹی آئی ظہور میں لائی گئی اور اب پی ٹی آئی کو آپے میں رکھنے کے لئے انہی قوتوں کو سامنے لایا جا رہا ہے، جن سے بیزار ہو کر پی ٹی آئی بنائی گئی تھی۔
یہ ماڈل اس قدر تھک چکا ہے کہ اب تو مہرے بھی جمائیاں لے رہے ہیں۔ عرض بس اتنی ہے کہ کم ازکم پھٹی ہوئی بساط ہی بدل لیں، مہرے بھلے وہی رکھیں مگر زرا سی پالش کروا لیں کیونکہ باز تو آپ نے آنا نہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔