اب تک پچاس ہزار سے زائد ترک اہلکار گرفتار یا برطرف
20 جولائی 2016ترک دارالحکومت انقرہ سے بدھ بیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ جمعے کی رات ترک فوج کے ایک دھڑے کی طرف سے مسلح بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو کوشش کی گئی تھی، اس کے بعد سے پورے ملک میں مختلف شعبوں کے اب تک گرفتار یا برطرف کیے گئے سرکاری اور نجی ملازمین کی تعداد 50 ہزار ہو چکی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ان پچاس ہزار افراد میں سکیورٹی کے شعبے میں فرائض انجام دینے والے ہزاروں فوجی اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ باقی کا تعلق ملکی عدلیہ اور تعلیم کے سرکاری اور نجی شعبوں سے ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن کی پارٹی کی موجودہ حکومت کی طرف سے غیر جمہوری اور باغیانہ سوچ رکھنے کے الزام میں جن ہزارہا سرکاری اہلکاروں کو برطرف یا گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف یہ اقدامات اس حکومتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کے تحت انقرہ چاہتا ہے کہ ملکی مسلح افواج، سکیورٹی اداروں اور ریاستی نوکر شاہی میں ’تطہیر‘ کا عمل مکمل ہونا چاہیے۔
اس تناظر میں بدھ کے روز صدر ایردوآن نے ایک طرف ناکام بغاوت کے بعد اگر پہلی مرتبہ ملکی سکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ایک اجلاس کی صدارت کی تو دوسری طرف عالمی سطح پر اس بارے میں پائی جانے والی تشویش اور بھی زیادہ ہو گئی کہ ترکی میں سکیورٹی اور ریاستی نوکر شاہی میں ’صفائی‘ کے اس عمل کے ساتھ دراصل قانون کی حکمرانی کے اصول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ایک ترجمان نے آج اس بارے میں کہا، ’’(ہزاروں گرفتاریوں کی صورت میں) ہم ہر روز ایسے نئے اقدامات دیکھ رہے ہیں، جن سے قانون کی بالادستی کے جمہوری ضابطے کی نفی ہوتی ہے اور جو اپنے حجم میں قطعی غیر متناسب ہیں۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران ترکی میں 300 سے زائد افراد مارے گئے اور پورے ملک میں بے تحاشا مادی نقصان بھی ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان دارالحکومت انقرہ میں ہوا، جہاں جنگی طیارے پروازیں کرتے رہے اور ہیلی کاپٹروں سے ملکی پارلیمان اور پولیس ہیڈکوارٹرز کی عمارات کو نشانہ بنایا گیا۔
انقرہ سے موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں اب تک مسلح بغاوت اور ملک سے غداری کے الزام میں مسلح افواج اور عدلیہ کے جن ارکان کو برطرف کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے، ان کی تعداد قریب ساڑھے نو ہزار بنتی ہے۔ ان میں 118 جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں جبکہ باقی گرفتار شدگان یا تو فوج اور پولیس کے افسران اور ساپی ہیں یا پھر عدلیہ کے جج اور پراسیکیوٹرز۔
اس کے علاوہ آج بدھ کے روز جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی وزارت تعلیم کے جن اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے، ان کی تعداد بھی مزید چھ ہزار کے اضافے کے ساتھ اب 22 ہزار ہو گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ21 ہزار کے قریب افراد کو نجی تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ان ہزاروں اساتذہ کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں اور مستقبل میں وہ کسی ترک تعلیمی ادارے میں پڑھا بھی نہیں سکیں گے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ترکی میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کس وسیع پیمانے پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک ترک وزارت کھیل کے بھی قریب ڈھائی سو اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔