اب شمالی کوریا سے ثابت قدمی سے نمٹا جائے گا، آبے
22 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے جاپانی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیس اکتوبر بروز اتوار جاپان کے پارلیمانی الیکشن کے ابتدائی نتائج کے مطابق حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی( ایل ڈی پی) کو واضح برتری حاصل ہو گئی ہے۔
توقع ہے کہ آبے کی پارٹی 465 نشستوں والی پارلیمان میں 311 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لے گی۔ اگر یہ ایگزٹ پولز درست ثابت ہوئے تو آبے ملک کے طویل ترین رہنما بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیں گے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں اس الیکشن میں آبے کا سیاسی اتحاد پچیس زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
جاپانی وزیراعظم نے ایوانِ زیریں تحلیل کر دیا
جاپان کی اپنے امن پسند آئین میں ترمیم کی متنازعہ خواہش
شمالی کوریا نے جاپان کے اوپر سے ایک اور میزائل داغ دیا
شینزو آبے نے گزشتہ ماہ ہی قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ بڑے پیمانے پر عوامی مینڈینٹ حاصل کر سکیں۔ علاقائی سطح پر شمالی کوریا کی ’اشتعال انگیزی‘ کے تناظر میں آبے اپنی سیاسی طاقت کو زیادہ فعال بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ اس حوالے سے زیادہ مؤثر طریقے سے کوئی پالیسی وضع کر سکیں۔
اتوار کو منعقد ہوئے اس الیکشن کے حتمی سرکاری نتائج پیر کے دن متوقع ہیں۔ کئی جائزوں کے مطابق ایسا امکان بھی ہے کہ آبے ’سپر اکثریت‘ حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔
ان انتخابات کی بارہ روزہ مہم کے دوران شمالی کوریا کا جوہری اور میزائل پروگرام مرکزی توجہ کا حامل رہا تھا۔ آبے نے اپنی انتخابی مہم میں بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں قطعی اکثریت حاصل ہوئی تو وہ شمالی کوریا کے معاملے پر زیادہ سخت مؤقف اختیار کریں گے۔
اس کامیابی پر آبے نے کہا کہ اب انہیں سیاسی مینڈیٹ حاصل ہو گیا ہے اور وہ شمالی کوریا سے زیادہ ثابت قدمی سے نمٹ سکیں گے۔ مبینہ طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے بعد تریسٹھ سالہ آبے نے ٹوکیو میں اپنے حامیوں سے کہا، ’’اس مقصد کی خاطر انہیں زیادہ طاقت اور سفارتکاری کی ضرورت تھی۔‘‘
سپر اکثریت ملنے کی صورت میں شینزو آبے امریکا کی طرف سے بنائے جانے والے ملکی آئین کے آرٹیکل نائن میں ترمیم کے قابل بھی ہو جائیں گے، جس کے تحت جاپان کی فوج پر پابندیاں عائد ہیں۔
آبے کا موقف ہے کہ موجودہ امن پسند آئین کسی آزاد قوم کے شایانِ شان نہیں ہے کیونکہ یہ 1946ء کے بعد قابض طاقت امریکا کی جانب سے جاپان پر مسلط کیا گیا تھا۔ دوسری طرف ناقدین کے خیال میں اس ترمیم کے بعد زیادہ امکان یہ ہے کہ جاپان مزید ایک جمہوری اور آزاد ملک نہیں رہے گا۔