احمد فراز کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال بیت گیا!
26 اگست 2009دنیا بھر میں اردو زبان کے شعراء، ادیب، قلم نگار، اور فنکاروں سے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی تھوڑی بہت بھی سمجھ رکھنے والے ہر شخص نے بھی گزشتہ روز احمد فراز کی کمی محسوس کی۔
پاکستان کے معروف شاعر احمد فراز کا اصل نام سعید احمد شاہ تھا۔ وہ چودہ جنوری 1931 ء نوشہرہ کے ایک نواحی گاوں میں پیدا ہوئے۔ اپنی رومانوی شاعری سے جہاں فراز نے ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دل جیتے وہیں اپنی حساس اور انقلابی شاعری سے انہوں نے بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔
نویں جماعت میں اپنا پہلا شعر کہنے والے فراز نے روایتی حریفوں بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے بھی بہت سے اشعار کہے اور نظمیں لکھیں۔
فراز نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایک دفعہ ان کے والد نے ان کے بھائی محمود کے لئے کچھ کپڑے لائے اور فراز کے لئے گرم کوٹ، جو انہیں پسند نہیں آیا۔ فراز نے اپنی برہمی کا اظہار اور اپنے ادبی کیریر کا آغاز اس شعر سے کیا:
’’سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لئے قیدی کا کمبل جیل سے‘‘
پاکستان کے صوبہ سرحد میں جنم لینے والے احمد فراز نے اپنی ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی جبکہ انہوں نے فارسی اور اردو زبان میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں فراز نے پشاور یونیورسٹی میں ہی مضامین پڑھائے۔
سابق پاکستانی صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں احمد فراز کو جیل بھی جانا پڑا۔ ایک مشاعرے کے دوران فوجی حکومت کے خلاف شعر پڑھنے والے فراز کو بعد میں خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ شاعری اور ادبی خدمات کے لئے احمد فراز کو ’ہلال امتیاز‘ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
احمد فراز اکثر بھارتی شہر حیدرآباد کا دورہ بھی کیا کرتے تھے جہاں وہ ’ای ٹی وی اردو‘ کے زیر اہتمام مشاعروں میں حصّہ لیتے تھے۔ ان کے مشہور شاعری کلام میں ’پس انداز موسم‘ ’سب آوازیں میری ہیں‘ خواب گل پریشان ہے‘ اور ’غزل بہانہ کروں‘ قابل ذکر ہیں۔ احمد فراز کا موازنہ شاعر مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض سے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ فراز کی نظم ’محاصرہ‘ کو مزاحمتی ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔
ایک شاعر کے طور پر فراز اگرچہ صحتِ زبان کے ساتھ ساتھ اوزان و بحور پر دسترس اور شعر کی تکنیکی باریکیوں سے واقفیت کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شاعر اور ادیب صرف لفظوں کا بازی گر نہیں ہوتا بلکہ اس کی کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور وہ ایک بے حِس، بے خبر اور بے ضمیر شخص کی طرح گِرد و پیش کے حالات سے بے نیاز ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔
زندگی کے آخری ایام میں احمد فراز ملک کی سیاسی صورتِ حال سے سخت نالاں تھے۔ ججوں کی برطرفی پہ وہ انتہائی دِل گرفتہ رہے اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو نوکریاں، وزارتیں، ٹھیکے اور پرمٹ دِلوانے والے کمیشن ایجنٹوں کا ایک گروہ قرار دیتے رہے۔
میڈیا پہ ہونے والی گفتگو کے دوران انھوں نے این آر او کو رشوت کی ایک قِسم قرار دیا تھا جس کے ذریعے عوام کا اربوں روپیہ لوٹ لے جانے والے ٹھگ ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈال رہے ہیں۔
آج احمد فراز ہمارے ساتھ موجود نہیں لیکن ان کی شاعری، ان کا کلام، ان کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہیں گے!
’’نیند تو کیا آئے گی فراز
موت آئی تو سو لیں گے‘‘
تحریر: انعام حسن
ادارت: گوہر نذیر گیلانی