’اخلاقیات کا جنازہ‘، ٹیکنالوجی بدل گئی خیالات نہ بدلے
10 دسمبر 2020کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید سوشل میڈیا ایک نشہ ہے۔ اگر میرا یہ خیال کسی حد تک درست ہے تو یقینا میرے لیے اس سے چھٹکارا پانا کچھ ایسا آسان نہیں۔ کچھ تو کام کی نوعیت ایسی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایکٹو رہنا پڑتا ہے اور سچ کہوں تو چسکا بھی پڑ چکا ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا سے وقتا فوقتا بریک لیتے رہتے ہیں تاکہ حقیقی زندگی سے رابطہ بنا رہے اور ہر وقت کی قنوطیت اور منفی سوچ سے کچھ دیر کو نجات ملے۔ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔
ہمیشہ یہی لگا کہ آج کل کے زمانے میں جب آزادی اظہار رائے پر طرح طرح کی قدغنیں لگ چکی ہیں سوشل میڈیا واحد جگہ ہے، جہاں سچائی دکھائی دیتی ہے۔ وہ خبر جو اخبار اور ٹیلی ویژن ناقابل بیان 'مجبوریوں' کے باعث نہیں دکھا پاتے سوشل میڈیا ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ معاشرے کا حقیقی مزاج جاننا ہو تو یہی واحد مقام ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ریاست کا عورت سے نامحرم جیسا فاصلہ
لیکن کل سے یوں لگ رہا ہے کہ ہر چیز ایک حد میں ہی بھلی ہے۔ ہمارے معاشرے کی بھیانک صورت یوں یک دم ہماری نظروں کے سامنے آ گئی ہے کہ دل چاہ رہا ہے کچھ دیر کو آنکھیں بھینچ لیں۔ جی، ان ہی سوشل میڈیا ٹرینڈز کا ذکر کرنے کی جسارت کر رہی ہوں، جن کا نام یہاں لینے کی اجازت نہ میرا قلم دیتا ہے اور نہ ہی تربیت۔
مریم نواز آج کل جم کر سیاسی ریلیاں کر رہی ہیں۔ ان کی مقبولیت عوام میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی مخالفین کو یہی سمجھا کہ ان کی کردار کشی کی جائے اور سوشل میڈیا پر ایسا ٹرینڈ بنا کر ڈالا جائے جسے دیکھ کر خون کھول جائے اور سر جھک جائے۔ بنانے والوں نے نہ صرف یہ ٹرینڈ بنایا بلکہ خوب چلایا بھی۔ یہ سب لوگ ہم میں سے ہی تھے نا؟ کسی بیرونی سازش پر تو یہ ملبہ ڈالا نہیں جا سکتا۔
لیکن رکیے۔ پکچر ابھی باقی ہے۔
اس ٹرینڈ کے جواب میں ایک اور ٹرینڈ کا آغاز ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان کی بیگم بشری بی بی کو مغلظات سے نوازا گیا۔ یوں سمجھیے کہ سیر کو سوا سیر کی صورت حاصل ہوئی۔ جہاں دونوں اطراف کے مردوں نے ان ٹرینڈز کو خوب بڑھاوا دیا بہت سی خواتین کی نظروں پر بھی سیاسی نظریات کی پٹی باندھ گئی۔
یہ بھی پڑھیے:اختلاف رائے اور خواتین صحافیوں کی کردار کُشی
کچھ ایسی ٹویٹس بھی نظروں سے گزریں جہاں ان کی تاویلات پیش کی گئیں۔ وہ لوگ جو ان ٹرینڈز کی مخالفت کر رہے تھے، انہیں بھی القابات سے نوازا گیا۔
یعنی ہمارا جو معاشرہ عورت کی عزت و تکریم کے دعوے کرتا ہے، اپنی اعلی اقدار کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے آج یہ ثابت کر گیا کہ ہم اسی عورت کی عزت کر سکتے ہیں جو ہمارے خیالات سے انکار نہ کرے۔ ہمارے گھر کی ہو تو اور اچھی بات۔ بقول ندیم افضل چن صاحب کے،
' یہ اصلی پاکستان نہیں بلکہ سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ ہے۔'
جہاں ندیم افضل چب صاحب کی بات سے اتفاق ہے وہاں اختلاف کی یہ جسارت بھی کرتی چلوں کہ یہ جنازہ تو ستر برس سے چل رہا ہے۔ بس ابھی تک قبرستان پہنچتا دکھائی نہیں دیا۔ یہ وہی ملک ہے جہاں بیگم رعنا لیاقت علی خان کے غرارے پر ہرزہ سرائی ہوئی۔ فاطمہ جناح کی کردار کشی ہوئی۔ مادر ملت کو غدار قرار دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی کردار کشی اس حد تک گر کر کی گئی کہ ہیلی کاپٹر سے ان کی خود ساختہ تصاویر گرائی گئیں۔ بے نظیر بھٹو کے بچوں کی ولدیت تک مشکوک قرار دی گئی۔
یہ جنازہ آج کا نہیں ہے۔ بس ہمارے معاشرے کے بھیانک چہرے پر جو نقاب ہے وہ وقتا فوقتا سرک جاتا ہے اور خوفناک مناظر بیان کرنے لگتا ہے۔ جہاں عورت کو مرد کی ملکیت تصور کیا جائے وہاں اس کی عزت کا معیار بھی اس کی ولدیت اور زوجیت سے منسوب ہے۔ اسے ایک انفرادی اور مکمل انسان سمجھنا تو درکنار۔ جہاں گالیاں تک ماں بہن کی دی جائیں ،وہاں کہاں کی اخلاقیات کیسی اخلاقیات۔
یہ بھی پڑھیے:یہ قصہ ہے سوشل میڈیا ٹرولنگ کا
عورتوں کی وہ کردار کشی جو پہلے اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعے ہوتی تھی اب سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے ہونے لگی ہے۔ بس طریقہ واردات بدلا ہے۔
ندیم افضل چن صاحب، اصل پاکستان یہی ہے۔ یہ ٹرینڈ چلانے والے پاکستانی ہی ہیں۔ اخلاقیات کا یہ جنازہ آج کا نہیں بلکہ ستر برس پرانی میت کا ہے۔ خدا جانے اسے قبر کی مٹی کب نصیب ہو گی۔ دعا اور امید پر دنیا قائم ہے ورنہ حال تو بے حال ہے اور متعفن بھی۔ ناک اور آنکھ دونوں کو کپڑے سے ڈھکنا پڑے گا۔ آپ بھی دل کڑا کیجیے اور دعا پر گزارا کیجیے۔