ادلب ایک سسکتا شامی صوبہ جسے دنیا نے نظر انداز کر دیا
5 فروری 2020شامی شہری مصطفیٰ دھنون نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں وہ کیمرے کے سامنے کھڑے یہ بتاتے نظر آتے ہیں، ''ادلب میں لوگ موت کو دیکھ سکتے ہیں یا پھر وہ سلامتی اور بہتر زندگی کی امید کے ساتھ سرحد پار کر کے ترکی جا سکتے ہیں۔‘‘
یہ ویڈیو گزشتہ ویک اینڈ پر اس وقت بنائی گئی تھی، جب ہزاروں شامی شہری ترکی کے ساتھ شامی سرحد پر جمع تھے۔ یہ لوگ 'ادلب سے برلن تک‘ کے موٹو کے ساتھ وہاں جمع ہوئے تھے، اس امید کے ساتھ کہ بین الاقوامی برادری ان کے مصائب کو سمجھے اور ان کی مدد کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ترکی کی شام سے ملنے پر سرحد پر جمع یہ شہری محسوس کرتے ہیں کہ دنیا نے انہیں بھلا دیا ہے۔
اسد کی آخری لڑائی
شامی صدر بشارالاسد کے مسلح دستے اور ان کے اتحادی روس کی فورسز گزشتہ دو مہینوں سے ادلب میں عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ شمال مغربی شام کا یہ صوبہ نقشے میں وہ آخری مقام ہے، جہاں باغیوں اور شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ بشارالاسد اس صورتحال کو اپنی حکومت کے حق میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
روسی فضائیہ کے تعاون سے شامی دستے کئی علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ صدر اسد خود اس لڑائی کو اپنی حکومت کے لیے آخری معرکہ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے کرسٹیان رینڈرز کہتے ہیں کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شاید صدر اسد کا ایک ہدف اس صوبے کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ کرنا بھی ہے۔
چند ہی ہفتوں میں شامی تنازعہ اپنے دسویں سال میں داخل ہو جائے گا۔ اس دوران بشارالاسد عسکری حوالے سے ایک فاتح کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اب ادلب ان کے نرغے میں ہے اور اس کامیابی کے بعد پورے شام پر دوبارہ کنٹرول کا ان کا منصوبہ پورا ہو جائے گا۔ اس خطے کو دمشق حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کے لیے شامی فوج اور روسی فضائیہ اکثر عام شہریوں اور عسکریت پسندوں میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔
ع ا / م م (ڈی ڈبلیو)