1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ادیب الحسن رضوی: پاکستان کے ’کرشمہ ساز مسیحا‘

عنبرین فاطمہ، کراچی15 جنوری 2016

گردوں اور ان سے متعلق امراض کے علاج کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے ادارے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ڈاکٹر رضوی کی کوششوں سے اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد مستفید ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HeFf
Local Heroes URDU Adeeb Rizvi
تصویر: SIUT

دس سالہ ابوبکر کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور سے ہے۔ گردوں کی تکلیف میں مبتلا اس بچے کو ہفتے میں تین مرتبہ گردوں کی صفائی یا ڈائیلیسز کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ تین برس سے اس بچے کو یہ سہولت کراچی میں گردوں کے علاج کے سب سے بڑے مرکز ’سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن‘ میں فراہم کی جا رہی ہے۔ زندگی بچانے کے لیے ضروری ڈائیلیسز پرائیویٹ کرانے پر چونکہ کافی رقم خرچ ہوتی ہے، اس لیے اس مہنگے علاج کا بوجھ اٹھانا اس بچے کے والدین کے بس میں نہیں تھا۔ اس بچے کے علاج پر اب تک پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات آچکے ہیں۔ تاہم ایس آئی یو ٹی کی طرف سے اس بچے اور اس جیسے دیگر سینکڑوں مریضوں کو یہ سہولت مفت فراہم کی جا رہی ہے۔

یہ ادارہ صرف ابوبکر ہی نہیں بلکہ گزشتہ چالیس برسوں میں ابوبکر جیسے ایک کروڑ کے قریب افراد کے لیے جینے کی امید بنا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی کو یہاں آنے والے افراد اپنا مسیحا مانتے ہیں اور انہیں ’میریکل ڈاکٹر‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کا ادارہ

SIUT کا آغاز کیسے ہوا اور اس کے پیچھے کیا خیال یا جذبہ کار فرما تھا، اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ادیب کا کہنا تھا، ’’میں ڈی جے سائنس کالج میں جن دنوں زیر تعلیم تھا، ان دنوں ایک تحریک بہت زور و شور سے جاری تھی۔ اس تحریک کا نعرہ تھا کہ تعلیم اور صحت ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ شروع میں ہم صرف نعرے لگاتے تھے لیکن آگے جا کر احساس ہوا کہ اس پر عمل بہت ضروری ہے۔ جب میں نے میڈیکل کی تعلیم لینا شروع کی تو لوگوں کی پریشانیاں دیکھیں کہ کس طرح وہ اپنے عزیز و اقارب کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے پریشانیاں اٹھاتے تھے، علاج کے لیے پریشان ہوتے تھے۔ ان دنوں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کی فیسیں زیادہ تھیں جس کا بوجھ ہر کوئی نہیں اٹھا پاتا تھا۔ میں نے غریب خواتین کو کانوں کی بالیاں اور دیگر ساز و سامان بیچتے دیکھا تو ان مسائل کا شدت سے احساس ہوا۔ میں سوچتا تھا کہ لوگوں کو بلا معاوضہ صحت کی سہولیات ملنی چاہییں تو لوگ کہتے تھے کہ ایسا کرنے کا تصور صرف خام خیالی ہے۔‘‘

Pakistan Dr. Adeeb Rizvi
تصویر: SIUT

ڈاکٹر رضوی کے مطابق ایم بی بی ایس کرنے کے بعد وہ اسپیشلائیزیشن کے لیے برطانہ چلے گئے، جہاں قیام کے آٹھ نو برس کے دوران انہوں نے وہاں کی نیشنل ہیلتھ سروس کا جائزہ لیا۔ اس نظام کے تحت صحت کی سہولیات ہر ایک کے لیے یکساں اور بلامعاوضہ تھیں، ’’اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ صحت کی مفت سہولیات دینا قابل عمل ہے۔‘‘

اپنے ملک اور اپنی دھرتی کے عوام کی محبت اور ان کی خدمت کا یہی جذبہ انہیں 1971ء میں وطن واپس لے آیا۔ برطانیہ سے یورولوجی کے شعبے میں اسپیشلائزیشن کے بعد لوٹنے والے ڈاکٹر رضوی نے پرائیویٹ پریکٹس شروع کرنے کی بجائے کراچی کے سرکاری سول اسپتال میں ملازمت کو ترجیح دی۔ وہاں انہوں نے گردے کی بیماریوں اور تکالیف کے علاج کے لیے آٹھ بستروں پر مشتمل ایک وارڈ کا آغاز کیا اور ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ لوگوں کا علاج شروع کر دیا۔

یہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کے ساتھیوں کا جذبہ خدمت اور انتھک محنت ہی تھی کہ چند بستروں سے شروع ہونے والا یہ وارڈ آج سندھ انسٹیٹوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ بن چکا ہے اور پاکستان بھر میں نو مختلف مراکز کی شکل میں گردوں اور جگر کے امراض مں مبتلا افراد کو علاج اور دیگر سہولیات مہیا کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔

Pakistan Dr. Adeeb Rizvi
تصویر: SIUT

ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ انہیں لفظ چیریٹی ناپسند ہے۔ ان کے مطابق یہ چیریٹی نہیں شئیرنگ ہے، ’’بس اسی خیال کو لے کر ہم آگے بڑھتے گئے اور کارواں بڑھتا گیا۔ ہم کبھی حکومت کی طرٖف سے فنڈز کے لیے نہیں رکے بلکہ نجی سیکٹرز اور لوگوں کی طرف سے کی جانے والی مدد کے تحت ہم اس کام کو اور ادارے کو بڑھاتے چلے گئے۔‘‘

ڈاکٹر رضوی کے مطابق پینتالیس برس قبل آٹھ بستروں پر شروع ہونے والا وارڈ آج آٹھ سو بیڈز پر مبنی ہسپتال ہے، ’’اس وقت ہمارے پاس ہسپتال کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جبکہ اب دو ملٹی اسٹوری عمارتین ہیں جبکہ تین مزید زیر تعمیر ہیں۔‘‘

SIUT پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں گردوں کے علاج کے حوالے سے ایک مستند ادارہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے اکثر سرکاری ہسپتالوں کے برعکس جو بات اس ادارے کو خاص بناتی ہے وہ ہر خاص و عام کے لیے علاج کی یکساں سہولیات ہیں۔ یہاں آنے والے ایسے مریضوں کا علاج بھی پوری ذمہ داری، محبت اور شفقت سے کیا جاتا ہے، جو مالی مشکلات کے باعث اپنا معیاری علاج کروانے سے قاصر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اس بات پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے چار دہائیوں سے زائد عرصے سے کوشاں بھی ہیں کہ مفت علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے مطابق، ’’ہم نے ابتدا صرف گردوں کے امراض سے کی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سہولیات اور شعبہ جات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت ایس آئی یو ٹی میں یورولوجی، نیفرولوجی، جی آئی، پیڈیاٹرک، کینسر اور ٹرانسپلانٹیشن کے شعبے کام کر رہے ہیں۔ ہماری ہر ممکن یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو کر سکتے ہیں وہ کریں اور جو کریں وہ بلا معاوضہ مگر عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کریں۔‘‘

ایس آئی یو ٹی میں گردے کی پیوندکاری کے ہر سال قریب پانچ سو پچپن آپریشن ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ آٹھ لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اس وقت روزانہ سات سو پچاس کے قریب مریضوں کا ڈائیلیسز کیا جاتا ہے جبکہ اسی ادارے میں اب تک سات لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے پاکستان میں گردوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ 1985ء میں کیا تھا اور اس وقت سے اب تک ایس آئی یو ٹی میں گردوں کے پانچ ہزار سے زائد مفت ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ادیب الحسن کی سربراہی میں حال ہی میں جگر یا لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب آپریشن بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح اب ایسے مریضوں کو بھی پاکستان ہی میں علاج کی سہولت میسر آگئی ہے جو اب تک اس مقصد کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے پر مجبور تھے۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان میں صحت کے میدان میں عوامی خدمت کے حوالے سے بہت پر امید ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرا ماننا ہے کہ نئے آنے والے ڈاکٹرز مجھ سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ جب میں نے کام شروع کیا تھا تو میرے سامنے پاکستان میں اس حوالے سے کام کی کوئی مثال نہیں تھی اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ ایسا پاکستان میں ہونا ممکن ہے بھی یا نہیں۔ میرے سامنے جتنی بھی مثالیں تھیں وہ یا تو یورپی ممالک کی تھی یا امریکی ریاست کی۔ لیکن اب نئی نسل کے سامنے مثال بھی ہے، بہتر تعلیم بھی اور بہتر معلومات تک رسائی بھی، اس لیے مجھے یقین ہے کہ نئی نسل اس سلسلے کو مزید بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتی ہے۔‘‘