اردن میں بلآخر شامی بچے اسکول جا سکیں گے
2 ستمبر 2016گزشتہ کئی برس سے یہ بچے اردن میں مقیم ہیں اور اس دوران اسکولوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ان بچوں کا داخلہ کسی اسکول میں نہ ہو سکا۔ 12 اور 14 برس کی عمر کے ان بچوں نے شامی اسکولوں میں جو کچھ سیکھا تھا، رفتہ رفتہ وہ بھی بھولتے جا رہے ہیں۔
اردن میں شامی مہاجرین کے ہم راہ 90 ہزار سے زائد بچے ہیں، تاہم گزشتہ برس بھی ان بچوں کو، لاکھوں شامی مہاجرین کو پناہ دینے والے دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح، اسکولوں تک رسائی نہ مل پائی۔ شام میں گزشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے اس نسل کو ’’برباد نسل‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم اردن میں اب صورت حال کچھ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی فنڈنگ کے تناظر میں اردن کی جانب سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ رواں ہفتے شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کے لیے اسکولوں میں نئے کمرے بنا رہا ہے، جب کہ ہزاروں اساتذہ کو بھرتی کیا جا رہا ہے، تاکہ ان بچوں کی تعلیم کا سلسلہ پھر شروع ہو سکے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے دفتر برائے اردن کے نمائندے رابرٹ جیکِنز کا کہنا ہے کہ بہت سے بچوں کے لیے ممکنہ طور پر یہ ایک طرح سے ’آخری موقع‘ ہو گا کہ وہ پڑھائی شروع کر سکیں۔ جیکِنز نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’اگر یہ بچے بہت زیادہ عرصے تک اسکولوں سے دور رہے، تو ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے، جب یہ ناممکن ہو جائے گا کہ ان بچوں کو دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔‘‘
بیک ٹو اسکول یا اسکول کو لوٹیے پروگرام کے تحت بچوں کو اسکول بھیجنے کا فائدہ انفرادی ہی نہیں بلکہ اردن کی مجموعی آبادی پر اس کے گہرے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، جب کہ مستقبل میں شام کی تعمیر نو میں بھی تعلیم یافتہ شامی بچے اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔
جمعرات کو حسن الاحمد نے اپنی نو سالہ بیٹی عائشہ اور سات سالہ بیٹے محمد کو اردن کے دارالحکومت عمان کے شمال مشرق میں واقع شہر زرقا میں ایک اسکول میں پہلی جماعت میں داخل کرایا۔
سن 2014ء میں یہ خاندان شام سے اردن منتقل ہوا تھا، تاہم تب سے اب تک ان بچوں کا کسی بھی اسکول میں داخلہ ممکن نہ ہو پایا تھا، مگر اب یہ بچے اسکول میں داخل ہو گئے ہیں۔
30 سالہ احمد کا کہنا ہے کہ ان کی نگاہ میں اس وقت سب سے اہم شے یہی ہیں کہ ان کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کریں، ’’اگر میرے بچے اسکول نہ گئے، تو وہ زندگی میں کچھ بھی کرنے لائق نہیں ہوں گے۔‘‘