اردو صحافت کا بدلتا چہرہ
18 دسمبر 2022جنوبی ایشیا میں صحافتی تعلیم کی قدیم درسگاہ سکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے استاد ڈاکٹرحنان احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں قارئین، سامعین اور ناظرین کی بڑی تعداد کی طرف سے خبروں کے حصول کے لئے آن لائن ذرائع استعمال کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ اخبارات کی سرکولیشن کم ہوگئی لیکن ان کے خیال میں خبریں پڑھنے والوں کی تعداد اور خبریں پڑھنے کے رجحان میں کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ موبائل فون بن چکا ہے۔
ڈیجیٹل صحافت
ڈاکٹر حنان کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے میڈیا اداروں نے اپنی اردو ویب سائیٹس بنا لی ہیں اور وہ خبروں کی ترسیل کے لئے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس بھی استعمال کر رہے ہیں۔ کئی صحافیوں نے اپنے یو ٹیوب چینل بنا لئے ہیں۔ صحافت کی ڈیجیٹیلائزیشن کے پیش نظر پاکستان میں صحافتی تعلیم دینے والے ادارے ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ کے سلیبس میں تبدیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ اردو خبروں کی تیاری اور پیشکش میں موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اب صحافی موبائل پر پریس کانفرنس کے اردو میں نوٹس لیتے ہیں۔ موبائل پر اردو سٹوری لکھتے ہیں اور موبائل پر ہی ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔
ماہرین کے بقول سوشل میڈیا اور سیٹیزن جرنلزم میں بھی اردو کا استعمال پہلے سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب ویب سائیٹس ، ٹیوٹر اور انسٹا گرام کو ایک اہم خبری ذریعے کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ سانحہ ساہیوال سے لیکر جنرل (ر) قمر باجوہ تک بہت سی خبریں مین سٹریم میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اردو صحافت کو فروغ دینے کا باعث بنی ہے۔ امریکہ چین روس برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ممالک نے خبروں کی ترسیل کے لئے اردو سروس شروع کر رکھی ہے۔ ناروے، سویڈن، کینیڈا سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں خبروں کی فراہمی کے لئے اردو ویب سائیٹس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عارف محمود کسانہ نے بتایا کہ ماضی میں ہم پردیس میں بیٹھے ہوئے پاکستانی لائبریری جا کر تین چار دن پرانا اردو اخبار پڑھا کرتے تھے اب اردو صحافت کے ڈیجیٹلائز ہونے سے ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ ہی تازہ ترین خبریں موصول ہو جاتی ہیں۔
صحافتی آزادی
ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے خبروں کی تیاری کے عمل کو بھی بہت سہل بنا دیا ہے۔ اردو لکھنے کے ایسے سافٹ وئیر آ گئے ہیں جن کی مدد سے بغیر کسی مشکل کے یونی کوڈ میں لکھے گئے ٹیکسٹ کو ان پیج یا پی ڈی ایف فائل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان زیرک احمد نے حال ہی میں ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ کے تحت اردو زبان کی ٹائپنگ کے لئے متن ساز کے نام سے ایک جدید ترین کی بورڈ تیار کیا ہے جس کے بعد کمپوٹرزکی جدید ترین اپلیکیشنز میں اردو کا استعمال ممکن ہو گیا ہے۔ صحافتی حلقے اس اہم پیش رفت کو اردو صحافت کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں۔
صحافت کے استاد اور تعلقات عامہ کے ایک ماہر توصیف صبیح کی رائے یہ ہے کہ اردو صحافت کے ڈیجیٹلائز ہونے سے صحافتی آزادی کو تقویت ملی ہے اور اب ماضی کی طرح کسی دباؤ کے تحت حقائق کو روکنا آ سان نہیں رہا ہے ۔ خبریں کہیں سے کہیں نکل کر عوام تک پہنچ ہی جاتی ہیں ۔
ادارتی اثرورسوخ کم
یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹدیز کی ڈین انجم ضیا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیٹیزن جرنلزم اور سوشل میڈیا کے فروغ سے ایڈیٹوریل چیک باقی نہیں رہا اور فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا رجحان بڑھا ہے۔ اس لیے ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور کے تقاضوں کے مطابق صحافت کی تعلیم دینے والے اداروں کو اپنے نصاب اور پالسیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی اور ذمہ دارانہ جرنلزم کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے بھی لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سینئیرصحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے باوجود اردو صحافت کا اصل بحران یہ ہے کہ اردو صحافت میں ہمیں تحقیقاتی رپورٹنگ نظر نہیں آ رہی۔ میڈیا مالکان اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے مضبوط پروفیشنل ایڈیٹر رکھنے سے گھبراتے ہیں۔ اور پروفیشنل لوگ کاروباری مالکان کی ہاں میں ہاں ملانے کو تیار نہیں وہ ایسی ملازمتیں قبول نہیں کرتے اس لئے اردو صحافت بڑی حد تک بغیر کسی پیشہ وارانہ چھان بین کے چل رہی ہے جو بھی لکھا جاتا ہے وہ چھپ جاتا ہے اورکمزور ایڈیٹر کی قیادت میں کمزور مواد اردو صحافت میں جگہ پا کر اس کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔
حامد میر کو گلہ ہے کہ اردو صحافت سے منسلک صحافی محنت نہیں کرتے اور بیانات کو خبریں بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور ان کے خبری مواد کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسے صحافیوں کا احتساب نہیں ہوتا جو ایک خاص پوزیشن لے کر اسی دائرے میں خبریں دے رہے ہوتے ہیں۔ حامد میر جعلی ناموں سے صحافتی لبادے میں پروپیگنڈا کرنے والے سیٹیزن جرنلسٹس کو صحافی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔