اسامہ بن لادن اپنے ہر محاذ پر ناکام رہا، ماہرین
11 مئی 2011گزشتہ برسوں کے دوران منظر عام پر آنے والے اسامہ بن لادن کے ویڈیو پیغامات کوئی بہت زیادہ واضح نہیں تھے۔ ان میں صرف جہاد کی ہی ترغیب دی جاتی تھی۔ اگر سیاسی اہداف کی بات کی جائے تو اس دوران بن لادن نے صرف عراق میں اسلامی خلافت کے قیام کی بات کی تھی۔میونخ یونیورسٹی کے ماہر مشرقی وسطی مشائیل باؤئر کہتے ہیں کہ عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال نے وہاں القاعدہ کوکمزور کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق میں القاعدہ ناکام ہو چکی ہے۔کیونکہ عراق میں اس تنظیم نے بہت خون خرابہ کیا ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس صورتحال نے القاعدہ کے حامی سمجھے جانے والے بہت سے سنی قبائل کو دہشت گردوں کے راستے میں لا کھڑا کیا ہے۔
افغانستان میں اسامہ بن لادن کو طالبان کی صورت میں ایک طاقت ور حلیف میسر آیا۔ پورے خطے میں طالبان کی غالباً وہ واحد حکومت تھی، جو ایک اسلامی ریاست کے بارے میں القاعدہ کے تصور کے قریب ترین تھی۔ انٹرنیٹ پرجہاد کے موضوع پر تحقیق کرنے والے عظیم الضفراوی کہتے ہیں کہ اس قربت کے باوجود افغانستان میں بھی اسامہ بن لادن کامیاب نہ ہو سکا۔
الضفراوی کے بقول القاعدہ افغانستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر دیکھتی تھی اور اس ملک نے انہیں پناہ بھی دے رکھی تھی۔ لیکن اب وہاں بھی القاعدہ کا نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کو القاعدہ کے بہت سے حامیوں نے ایک بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ کیونکہ ان حملوں سے قبل افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی، جو بعد میں ختم ہو گئی۔
اس کے علاوہ گیارہ ستمبر2001ء کے حملوں نے مغربی ممالک کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن صرف دنیا کو دہشت زدہ کرنے میں ہی کامیاب ہوئے تھے۔ عظیم الضفراوی کے بقول القاعدہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے مابین خلیج بڑھانے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ حالانکہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بھی دوری کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ اسامہ بن لادن اپنے آبائی ملک سعودی عرب کی حکومت کے بھی شدید مخالف تھے لیکن وہاں بھی حکومت گرانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنا ہدف حاصل نہ کر سکے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی