استنبول خودکش حملہ آور کو ایک ہفتہ قبل رجسٹر کیا گیا تھا
13 جنوری 2016ترک شہر استنبول کے تاریخی علاقے سلطان احمد میں منگل 12 جنوری کو ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 10 سیاح ہلاک ہو گئے تھے، ان میں سے آٹھ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور جسے دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کا ایک رکن قرار دیا جا رہا ہے حال ہی میں شام سے ترکی پہنچا تھا۔ استنبول کے علاقے سلطان احمد میں سیاحوں کی دلچسپی کے کئی مقامات موجود ہیں جن میں بلو موسک، آیا صوفیہ اور توپ کاپی میوزیم شامل ہیں۔
ترک میڈیا کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ خودکش حملہ آور کو ایک ہفتہ قبل ہی استنبول کے امیگریشن آفس میں رجسٹر کیا تھا تھا۔ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترک وزیر داخلہ ایکفان اعلیٰ نے بتایا کہ ترک حکام کے پاس اس شخص کے فنگر پرنٹس موجود ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ریکارڈ کے مطابق وہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ ایکفان اعلیٰ نے یہ بات جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بتائی۔ ڈے میزیئر اس حملے کے تناظر میں ترکی میں ہیں۔
ترک میڈیا کی بعض رپورٹوں میں حملہ آور کی شناخت سعودی عرب میں پیدا ہونے والے نبیل فضلی کے نام سے کی گئی ہے جس کا استنبول کے امیگریشن آفس میں اندراج پانچ جنوری کو کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ شناخت خودکش حملہ آور کے فنگر پرنٹس کے تجزیے کے بعد سامنے آئی ہے۔
’’جرمنوں کو جانتے بوجھتے نشانہ نہیں بنایا گیا‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نےمنگل کو ترکی کے شہراستنبول میں ہونے والے خود کُش حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’قاتلانہ عمل‘ قرار دیا ہے۔ جرمن چانسلر نے مزید کہا کہ’’ دہشت گرد آزاد انسانوں اور انسانیت کے دشمن ہیں‘‘۔ اس حملے میں 10 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 8 جرمن شہری تھے۔ میرکل نے تاہم یقین دلایا ہے کہ عالمی پارٹنرز کے ساتھ مل کردہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ ترک میڈیا کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے ٹیلی فون کے ذریعے جرمن چانسلرانگیلا میرکل سے اس بارے میں بات چیت بھی کی۔
ترکی کے دورے پر پہنچے ڈے میزیئر کا کہنا تھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ جرمنوں کو جانتے بوجھتے اس دھماکے کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ میزیئر کے مطابق وہ اس بات کی بھی کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ جرمن اپنے سفری شیڈول میں کوئی تبدیلی لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی اور جرمنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ وہ پارٹنرز کے درمیان تعاون کو تباہ یا اسے مخمصے میں ڈال سکتے ہیں تو اس کا برعکس نتیجہ نکلا ہے۔ ترکی اور جرمنی مزید قریب آ رہے ہیں۔‘‘