استنبول نائٹ کلب کا حملہ آور ایغور ہو سکتا ہے، ترک میڈیا
5 جنوری 2017استنبول کے اس نواحی ساحلی علاقے کا نام سلیم پاشا ہے۔ اِس قصبے پر مارے گئے چھاپے میں استنبول کی سٹی پولیس کے اہلکاروں کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی پولیس اور خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کے دستے بھی شامل تھے۔ اس کارروائی کے دوران پولیس نے کئی مشتبہ افراد کو اپنی تحویل میں لے کر چھان بین کا عمل شروع کر دیا ہے۔
سلیم پاشا سے گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کی تعداد بارے پولیس نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔ استنبول کے نائٹ کلب پر حملے کے بعد اب تک کم از کم چھتیس افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق ان گرفتاریوں سے ابھی تک حملہ آور کے حوالے سے کوئی مثبت سراغ دستیاب نہیں ہوا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق رینا نائٹ کلب پر حملے کا مبینہ ملزم ایغور نسل کا باشندہ ہو سکتا ہے۔ سلیم پاشا علاقے میں ترک حکام نے ایغور نسل کے باشندوں کو پابند کر کے رکھا ہوا ہے۔ پولیس نے شک کی بنیاد پر ہی ایغور نسل کے باشندوں سے پوچھ گچھ کا عمل شروع کیا ہے۔ چین کے سیاسی عدم استحکام کے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمان ہی مسلح مزاحمتی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ چند اور وسطی ایشیائی ریاستوں اور ترکی میں بھی اِس نسل کے لوگ آباد ہیں۔
بدھ چار جنوری کو ترک پولیس نے بحیرہٴ ایجیئن کے کنارے پر آباد مشہور شہر ازمیر میں بھی چھاپے مار کر کم از کم بیس افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ازمیر سے گرفتار ہونے والے افراد میں تین ایسے خاندان بھی ہیں، جو وسطی ترک شہر قونیا سے منتقل ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق کم از کم بیس مشتبہ عسکریت پسندوں کے قبضے سے جعلی پاسپورٹ، موبائل فونز اور رات کے وقت تاریکی میں دیکھنے والی عینکیں اور گراؤنڈ پوزیشن کا تعین کرنے والے آلات بھی برآمد ہوئے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ابھی ایک روز قبل انکشاف کیا تھا کہ استنبول کے نائٹ کلب پر نئے سال کے موقع پر حملہ کرنے والے کی حتمی شناخت کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے حملہ آور کی شناخت کی مزید تفصیل ظاہر کرنے کو قبل از وقت قرار دیا۔ ترک میڈیا کے مطابق حملہ آور کا تعلق وسطی ایشیائی ریاستوں کرغیزستان یا ازبکستان کے ساتھ ہو سکتا ہے۔