1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی خواتین فلسطینی تنازعے کے حل کی خواہاں

عاطف بلوچ6 مارچ 2015

اسرائیل میں پارلیمانی الیکشن کے موقع پر اس مرتبہ فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کا معاملہ قابل ذکر طور پر اگرچہ غائب ہے تاہم خواتین کا ایک گروہ اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Eml0
ویمن ویج پیس نامی یہ گروہ اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی حالیہ جنگ کے بعد معرض وجود میں آیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/Sebastian Scheiner

اسرائیل میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات سترہ مارچ کو منعقد کیے جائیں گے۔ ان انتخابات کے دوران خواتین کی طرف سے بنایا گیا ’ویمن ویج پیس‘ نامی گروہ فلسطینیوں کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ رہنے کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس گروہ میں شامل جوان، نو عمر اور بزرگ خواتین نے نسل و مذہب سے بالا تر ہو کر یروشلم میں واقع پارلیمان کے باہر مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں شامل ہزاروں اسرائیلی اور عرب خواتین کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا حل تلاش کیا جائے یا کم از کم ملکی سیاستدان اس پر بحث تو کریں۔

ویمن ویج پیس نامی یہ گروہ اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی حالیہ جنگ کے بعد معرض وجود میں آیا تھا۔ اس گروہ کی ایک بانی میشل شیمار کہتی ہیں، ’’ہمارا ادارہ غیر سیاسی ہے اور ہم لوگوں کے ساتھ مل کر ایک نئی امید اور امن کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘ اس گروہ کی ممبر خواتین کی تعداد سات ہزار ہو چکی ہے جبکہ اس کے حامی دیگر پندرہ ہزار افراد سوشل میڈیا پر انتہائی فعال ہیں۔

Israel 2013 Wahl
اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات سترہ مارچ کو منعقد کیے جائیں گےتصویر: AP

شیمار کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ آئندہ حکومت جو کوئی بھی بنائے، اسے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات بحال کر دینے چاہییں اور کئی عشروں پرانے اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر اور مناسب کردار ادا کرنا چاہیے۔ غیر سیاسی ادارہ ہونے کی وجہ سے شیمار نے آئندہ وزیر اعظم کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی اس اہم منصب پر براجمان ہو، وہ فلسطینی تنازعے کا پائیدار حل تلاش ضرور کرے۔

اس گروہ کی ایک ممبر للی وائسبیرگر کہتی ہیں، ’’مَیں حالیہ غزہ جنگ کے دوران دعا گو تھی کہ اس عسکری مہم میں میرا بیٹا ہلاک نہ ہو۔‘‘ ان کا اکیس سالہ فوجی بیٹا اس جنگ میں زخمی ہو گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’جب میرا بیٹا زخمی ہوا تھا تو میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں جنگ کے خلاف آواز بلند کروں گی۔‘‘ اسی لیے انہوں نے ویمن ویج پیس نامی گروہ کی رکنیت اختیار کی۔

خواتین کا یہ گروہ ’اسرائیلی معاشرے میں عسکریت پسندی‘ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد ہر لڑکے کو تین سال اور ہر لڑکی کو دو سال کے لیے لازمی فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کبھی بھی کسی بھی محاذ پر بھیجا جا سکتا ہے۔

تل ابیب کے نواح میں واقع ایک اسکول میں عربی کی استانی اور چار بچوں کی ماں ایمل ریحان کہتی ہیں، ’’مَیں اٹھارہ تا بیس سال کی عمر کے اسرائیلی نوجوانوں کو کسی ایسی جنگ میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتی، جہاں دوسری طرف فلسطینی بچے بھی ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس تنازعے کا واحد حل ایک پرُامن ڈیل ہی ہے۔‘‘

اسرائیلی انتخابات کے دوران وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اعتدال پسند اپوزیشن اتحاد کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس مرتبہ ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے جہاں اپوزیشن نیتن یاہو پر ذاتی حملے کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف بہتر معیار زندگی پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ، ایران کی طرف سے ممکنہ خطرہ اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کی پرتشدد کارروائیوں پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔

اس انتخابی مہم میں البتہ نہ تو مغربی اردن میں اسرائیلی قبضے پر کوئی سیاستدان رائے دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی زبان فلسطینوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے کوئی بیان دے رہی ہے۔ امریکا کی کوششوں کے باوجود اپریل میں مشرق وسطیٰ امن مذاکرات ناکام ہو گئے تھے اور تب سے اب تک اس حوالے سے کوئی مؤثر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری طرف عالمی تنقید کے باوجود نیتن یاہو کی انتظامیہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کا متنازعہ منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔