اسرائیلی فائرنگ میں صحافی ابوعاقلہ کی ہلاکت کی عالمی مذمت
12 مئی 2022قطری نیوز چینل الجزیرہ سے وابستہ اور "فلسطینی کوریج کی علامت" قرار دی جانے والی معروف فلسطینی امریکی صحافی51 سالہ شیرین ابو عاقلہ بدھ کے روزمقبوضہ مغربی کنارے کے جینن شہر میں رپورٹنگ کے دوران اسرائیلی فورسز کی فائرنگ میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ گولی ان کے سر میں لگی تھی۔
الجزیرہ نے ایک بیان میں کہا کہ شیرین ابو عاقلہ کو ''سرعام قتل'' کیا گیا ہے اور بین الاقوامی برادری سے اس کے لیے اسرائیلی فورسز کو ذمہ دار قرار دینے کی اپیل کی ہے۔
عالمی برادری کی جانب سے مذمت
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ وہ ابوعاقلہ کی ہلاکت سے "وحشت زدہ"ہے اور ان کی ہلاکت کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔ کمیشن کی چیئرمین مشیل بیچلیٹ کی دفتر کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا،"جنین میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے کوریج کے دوران صحافی شیرین ابو عاقلہ کی ہلاکت پر ہم وحشت زدہ ہیں۔ ہم ان کی ہلاکت کی آزادانہ اور شفاف انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
یورپی یونین سفارتی سروس کے ترجمان اعلیٰ پیٹر اسٹانو نے کہا،"جلد از جلد مکمل اور آزادانہ تفتیش سے ہی ان واقعات کے اسباب کا پتہ چل سکے گا اور اس کے لیے قصورواروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ابو عاقلہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے اس کی''فوراً اور مکمل تفتیش" کی اپیل کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے قصورواروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا،"عرب گروپ نے ابو عاقلہ کے قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس جرم کی آزادانہ بین الاقوامی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔" غزہ پٹی کا کنٹرول سنبھالنے والے حماس نے کہا کہ ابو عاقلہ کا قتل اسرائیلی قابض فورسز کا تازہ ترین جرم ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے ذریعہ فلسطینیوں کی "غیر قانونی ہلاکتوں" اور نسلی تفریق کے دیگر جرائم کو فوراً روکنے کی اپیل کی۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں ابو عاقلہ کا قتل کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ "ہم جانتے ہیں کہ اسرائیلی فورسز منظم انداز میں کس طرح طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ ابو عاقلہ کا قتل اس کی ایک اور مثال ہے۔"
قطرنے اسے "انتہائی بھیانک جرم اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی واضح خلاف ورز ی نیز میڈیا اوراظہار رائے کی آزادی میں صریح مداخلت" قرار دیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا،"ابوعاقلہ کی ہلاکت صحافیوں کو نشانہ بنانے، سچائی کو روکنے اور خاموشی سے جرائم انجام دینے کی قابض کی پالیسی کا حصہ ہے۔" انہوں نے اس قتل کے لیے اسرائیلی حکومت کو پوری طرح ذمہ دار قرار دیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے کہا کہ ابو عاقلہ "غالبا" فلسطینی بندوق برداروں کی طرف سے فائرنگ کے تبادلے کا نشانہ بن گئیں۔ تاہم اسرائیلی فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ سب کیسے ہوا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ اور اسرائیلی فوج نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے جس میں ایک فلسطینی بندوق بردار کو جنین کیمپ میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ایک اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم 'بی سیلیم' نے کہا کہ جینن میں اس کے تفتیش کاروں نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ ویڈیو میں جس فلسطینی بندوق بردار کو دکھایا گیا ہے اس کے لیے ابوعاقلہ کو نشانہ بنانا ممکن نہیں تھا۔
فلسطین نے اسرائیل کی مشترکہ تفتیش کی پیش کش مسترد کردی
اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی سے مشترکہ پوسٹ مارٹم اور تفتیش کرانے کی اپیل کی تاکہ سچائی سامنے آسکے۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کی اس پیش کش کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا،"اسرائیل جو کہہ رہا ہے وہ حقیقت سے پرے ہے اور ہم اس معاملے پر ان لوگوں کی جانب سے تفتیش کی پیش کش کو قبول نہیں کرسکتے جو خود ان جرائم میں ملوث ہیں۔"
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ابو عاقلہ کی موت کی ”شفاف تحقیقات" کی جانی چاہییں۔ انھوں نے کہا کہ ”ہم دونوں فریقوں کو ان تحقیقات میں حصہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں تاکہ ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکیں کہ یہ واقعہ کیونکر رونما ہوا ہے“۔ انھوں نے مزید کہا کہ ”امریکی شہریوں کا تحفظ اور صحافیوں کا تحفظ امریکا کی اولین ترجیح ہے“۔
دریں اثنا ابوعاقلہ کی ہلاکت پر اسرائیلی فورسز کے خلاف متعدد عرب ملکوں کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی مظاہرے ہوئے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)