1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی فوج کا ملکی میڈیا پر کس قدر کنٹرول ہے؟

امتیاز احمد دانا ریجیف
26 جولائی 2017

اردن میں واقع اسرائیلی سفارت خانے پر حملے کے چند گھنٹے بعد تک اسرائیل کے مقامی میڈیا میں اس حملے سے متعلق معلومات حاصل کرنا ناممکن تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں خبروں کو سینسر کیوں کیا جاتا ہے؟

https://p.dw.com/p/2hAfN
i24news internationaler Nachrichtensender aus Israel 17.06.2013
تصویر: Jack Guez/AFP/Getty Images

اتوار کی شام کو اردن کے دارالحکومت عمان میں واقع اسرائیلی سفارت خانے میں پیش آنے والے ایک پرتشدد واقعے میں اردن کے دو شہری ہلاک جبکہ سفارت خانے کا ایک اسرائیلی محافظ زخمی ہو گیا تھا۔ اسرائیل کے مقامی ذرائع ابلاغ میں اس واقعے کے گھنٹوں بعد تک بھی کوئی خبر پڑھنا ناممکن تھا اور اس کی وجہ مبینہ طور پر فوج کی طرف سے جاری کردہ احکامات تھے۔

اسرائیل کے تمام میڈیا اداروں کے لیے ملٹری سینسرشپ پر عمل کرنا ضروری ہے اور ابتدائی طور پر اسرائیلی ملٹری سینسر نے عمان میں ہونے والے اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ کرنے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔ ایک مخصوص واٹس اپ گروپ میں صحافیوں کو یہ بتایا گیا کہ ’’حکومت نے اس وجہ سے اس خبر کو جاری نہ کرنے کا کہا ہے تاکہ سفارت خانے کے تمام عملے کو پہلے وہاں سے بحفاظت نکال لیا جائے۔‘‘

Symbolbild Zeitungen in Israel
اسرائیل کے بہت سے لوگوں کے لیے فوجی سینسرشپ مثالی تو نہیں ہے لیکن یہ غیرمناسب بھی نہیں ہےتصویر: Getty Images/D. Silverman

چونکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اسرائیلی سینسر شپ کی ہدایات پر عمل کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں اور اس طرح بہت سے غیرملکی میڈیا چینلز پر یہ خبر آ گئی تھی۔ تاہم بہت سے اسرائیلیوں نے اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر حکومتی سینسر شپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی حکومتی موقف کے مطابق فرنیچر تبدیل کرنے کے لیے آنے والے ایک شخص نے محافظ پر پیچ کس سے حملہ کیا تھا اور جوابی کارروائی میں دو اردنی شہری ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب اردن کا کہنا تھا کہ اردن کے شہری نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ دونوں کے مابین بحث کے بعد اسرائیلی محافظ نے فائرنگ کر دی۔

ایسا کوئی عدالتی حکم تو نہیں ہے کہ تمام اسرائیلی میڈیا اداروں کو اسرائیلی ملٹری سینسر کے احکامات ماننے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے تمام میڈیا ادارے سکیورٹی ایشوز کے حوالے سے اسرائیلی فوج کے اس ادارے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے پابند ہیں۔

اسرائیل کے بہت سے لوگوں کے لیے فوجی سینسرشپ مثالی تو نہیں ہے لیکن یہ غیرمناسب بھی نہیں ہے۔ اسرائیل کے ایک ویڈیو پروڈیوسر ایویتار کوہن کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ اس حوالے سے کوئی سینسرشپ احکامات تھے۔ اصولی طور پر میں عوام تک اطلاعات پہنچانے کے حق میں ہوں لیکن اگر کسی کی جان کو خطرہ ہو تو میں سینسرشپ یا خبر دبانے کے سرعام احکامات کی حمایت کروں گا۔‘‘

دوسری جانب تل ابیب میں بین الاقوامی تعلقات کی ایک طالبہ ڈفنا لاوی اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ ایک ناقابل قبول عذر ہے، ’’میں سمجھتی ہوں کہ بعض اوقات لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ ہوتا ہے لیکن ایمانداری سے بات کی جائے تو سوشل میڈیا کے دور میں یہ بات بے وقعت لگتی ہے۔‘‘

اس کا مزید کہنا تھا، ’’ہم سب کو بین الاقوامی میڈیا سے نوٹیفیکیشن موصول ہوتے ہیں۔ ہم سب کے پاس ٹوئٹر اور فیس بک ہے، اب ایسا نہیں ہے کہ لوگوں تک معلومات نہیں پہنچیں گی۔‘‘  ڈفنا لاوی اس حوالے سے مزید کہتی ہیں، ’’ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کی طرح اسرائیل اپنی طاقت معلومات کو سینسر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ حقیقت میں اسرائیل کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایسی صورتحال کا مقابلہ ملٹری سینسرشپ یا پھر معلومات دبانے کے حکم نامے کے بغیر کر سکے۔‘‘

ڈفنا لاوی کا اس حوالے سے مغرب کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’مغربی ممالک میں اس طرح نہیں ہے اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘