اسرائیلی وزیر اعظم کا عرب ریاست عمان کا غیر اعلانیہ دورہ
27 اکتوبر 2018اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے خلیجی ریاست عمان کا غیر متوقع دورہ کیا ہے۔ ان کے دفتر کے مطابق نیتن یاہو یہ دورہ کرنے کے بعد واپس اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بینجمن نیتن یاہو کو عمان کے دورے کی دعوت اس خلیجی ریاست کے سربراہ سلطان قابوس بن سعید نے دی تھی۔
اس دورے کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں لیڈروں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے عمل میں پیش رفت کے امکانات پر خاص طور پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ یہ دورہ بینجمن نیتن یاہو کے لیے اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ وہ کئی مرتبہ عرب ریاستوں کے ساتھ خفیہ رابطہ کاری کے دعوے کر چکے ہیں۔
عمانی ٹیلی وژن نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سلطان قابوس کی ملاقات کی فوٹیج بھی نشر کی۔ بینجمن نیتن یاہو نے اسی فوٹیج کو اپنے ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ عمان کے خصوصی دورے کے دوران ’تاریخ رقم ہوئی ہے‘۔ اس دورے کے حوالے سے بہت ہی کم تفصیلات میڈیا کو بتائی گئی ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس دورے سے ایک روز قبل یعنی پچیس اکتوبر کو فلسطینی صدر محمود عباس بھی سلطنت عمان کے دورے پر تھے۔ فلسطینی اور اسرائیلی لیڈروں کے دوروں سے ایسے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ ان متحارب فریقین کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے عمان امریکا کی خواہش پر متحرک ہوا ہے۔
سلطنت عمان کے دورے پر اسرائیلی وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ، ملکی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ، قومی سلامتی کے مشیر، خارجہ امور اور دفاع کی وزارتوں کے اعلیٰ حکام بھی تھے۔ رواں برس فروری میں عمانی وزیر خارجہ نے ویسٹ بینک کے ساتھ ساتھ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کا دورہ بھی کیا تھا۔
دونوں ملکوں کے لیڈروں کی گزشتہ ملاقات سن 1996 میں بھی ہوئی تھی۔ بائیس برس قبل اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز نے عمان کا دورہ کیا تھا۔
اسرائیل اور عمان کے آپس میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ عرب دنیا میں صرف مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ریاست عمان فلسطینی قیادت پر بہت گہرے اثر و رسوخ کی حامل نہیں ہے اور ماضی میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں بھی فعال نہیں رہی۔