اسرائیلی وزیر دفاع اور فلسطینی صدر کی اہم ملاقات
31 اگست 2021امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی اپیل کے دو روز بعد اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹس نے اتوار کی رات رملہ جا کر صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ انہوں نے سکیورٹی، سویلین اور اقتصادی امور پر بات چیت کی۔ انہوں نے صدر عباس سے کہا کہ اسرائیل فلسطین کی معیشت کو مستحکم کرنا چا ہتا ہے۔
وائٹ ہاوس کی طر ف سے جمعے کے روز جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ سے ”فلسطینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے اقدامات اور ان کے لیے معیشت کے زیادہ مواقع پیدا کرنے"کی اپیل کی ہے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بات چیت کے ذریعہ دو ریاستی حل ہی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تصادم کا واحد عملی اور دیرپا حل ہے۔
جو بائیڈن نے دونوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی اپیل کی تھی جو کہ سن 2014 میں براہ راست امن مذاکرات کے آخری دور کے نا کام ہوجانے کے بعد سے مسلسل کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
کیا باتیں ہوئیں؟
اسرائیلی وزارت دفاع کی طرف سے پیر کے روز جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بینی گینٹس اور عباس نے مقبوضہ مغربی کنارہ میں فلسطینی معیشت کی تعمیر کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
بات چیت کے بعد بینی گینٹس نے مغربی کنارے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے 150ملین ڈالر کے قرض کا اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیر دفا ع نے گھریلو میڈیا کو بتایا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے مفادات کے مدنظر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے بتایا کہ انہوں نے صدر عباس سے کہا،”فلسطینی اتھارٹی جتنی مضبوط ہوگی حماس اتنا ہی کمزور پڑتا جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،”سکیورٹی جتنی مستحکم ہوگی حکمرانی کی صلاحیت اتنی ہی بہتر ہوگی۔“ خیال رہے کہ غزہ میں حماس کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیاں جنگی جرم، اقوام متحدہ
ایک فلسطینی عہدیدار نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ صدر عباس نے بینی گینٹس سے اپیل کی کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں بند کی جائیں، فلسطین کے لوگوں کو اسرائیل میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی اجازت دی جائے اور اسرائیل میں جن فلسطینیوں کو کام کرنے کی اجازت ہے ان کی اجرتوں میں اضافہ کیا جائے۔
دونوں رہنماوں کی بات چیت کے دوران اسرائیل اور فلسطینی انٹلی جنس کے اعلی افسران بھی موجود تھے۔
فلسطینی صدر عباس کا کہنا ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کے امریکا کے صدر بننے کے بعد مشرق وسطیٰ امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں۔
حماس کا ردعمل
حماس نے اس ملاقات کو ”سراب کا تسلسل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ اس طرح کی ملاقات سے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوجائیں گے۔
اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے والے حماس کے ایک ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ اس طرح کے مذاکرات سے فلسطینی برادری میں تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا۔
یروشلم سے بے دخلی: فلسطینیوں نے اسرائیلی تجویز مسترد کر دی
اس ملاقا ت کو اہم کیوں کہا جا رہا ہے؟
امریکا کی ثالثی میں قیام امن کی کوششوں کے سن 2014 میں ناکام ہوجانے کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اعلی سطحی ملاقات کے لیے اسے ابتدائی قدم کہا جاسکتا ہے۔
جوبائیڈن کے امریکا کے صدر بننے کے بعد بات چیت بحال ہونے کی نئی امیدیں پیدا ہوئی ہیں جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز موقف کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوگئی تھی۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے کے لیے دو ریاستی حل کے حق میں ہیں لیکن ان کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ سنجیدہ گفتگو شروع ہونے سے قبل دونوں فریقین اعتماد سازی کے اقدامات پر توجہ مرکوز کریں۔
تیرہ برسوں میں غزہ کی چار جنگیں، اثرات کیا اور نقصانات کتنے؟
اسرائیل کے نئے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ گزشتہ ہفتے ہی امریکا کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہاں انہوں نے صدر بائیڈن کے ساتھ تازہ ترین صورت حال پر بات چیت کی تھی۔
اس سال کے اوائل میں بینجمن نیتن یاہو کو شکست دے کر اقتدار پرفائز ہونے والے نفتالی بینیٹ کو سخت گیر رہنما سمجھا جاتا ہے اور وہ فلسطین کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم جن حلیف جماعتوں کی مدد سے وہ اقتدار تک پہنچے ہیں ان کی وجہ سے وہ فلسطینی معیشت اور محمود عباس کی فتح پارٹی کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)