اسرائیلی وزیر کا دورہ بیت المقدس، مسلمان ممالک کا احتجاج
3 جنوری 2023اسرائیل کے وزیر سلامتی اتمار بین گویر نے منگل کے روز مختصر وقت کے لیے یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے ٹیمپل ماؤنٹ کے علاقے میں پولیس افسران کے ساتھ دائیں بازو کے اس قوم پرست سیاستدان کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کی ہیں۔
بین گویر نے ٹویٹر پر کہا، ''ٹیمپل ماؤنٹ سب کے لیے کھلا ہے‘‘۔ تاہم اسرائیلی وزیر نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی ہے۔
فلسطینی علاقے کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ''انتہا پسند وزیر بین گویر کی طرف سے یہ مسجد اقصیٰ پر ایک حملہ تھا، جس کی پرزور مذمت کی جاتی ہے‘‘۔ بیان میں اسے ایک ''بے مثال اشتعال انگیزی اور تنازعے میں خطرناک اضافہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر جیئر لاپیڈ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس سے تشدد بڑھ سکتا ہے۔
خلیجی ممالک کا احتجاج
سعودی عرب نے اسرائیلی وزیر کے اس ''اشتعال انگیز اقدام‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے، اسے مسجد اقصیٰ پر''دھاوا‘‘ قرار دیا ہے۔ سعودی عرب سے ملتا جلتا بیان ہی متحدہ عرب امارات کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ یو اے ای نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
اردن نے بھی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح مسجد اقصیٰ کی ''حرمت کو پامال‘‘ کیا گیا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اردن کی جانب سے اسرائیلی سفیر کو طلب کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا ہے۔ مسجد اقصیٰ کا انتظام اردن کے پاس ہے لیکن اس کے راستوں کی سکیورٹی اسرائیلی فورسز کے ہاتھ میں ہے۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتيہ نے بھی اسرائیلی وزیر کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو کنیسا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ کنیسا یہودیوں کی عبادت گاہ کا کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے فلسطینی وزیر اعظم کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اپنی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے اشتیہ نے فلسطینیوں سے کہا ہے کہ وہ ''مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے اسرائیل کے اس اقدام‘‘ کا مقابلہ کریں۔
دریں اثناء حماس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، '' ایسے طرز عمل کا تسلسل تمام فریقوں کو ایک بڑے تصادم کے قریب لے جائے گا‘‘۔
ا ا / ر ب (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)