اسرائیل و فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات، ملاقاتیں شروع
1 ستمبر 2010فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین براہِ راست مذاکرات کل جمعرات سے شروع ہو رہے ہیں۔ اس پیش رفت کے برعکس مغربی کنارے میں چار یہودی آباد کاروں کے قتل سے صورت حال کے مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تشدد کا یہ تازہ واقع منگل کو پیش آیا، جس کی ذمہ داری اسلامی تحریک حماس پر ڈالی گئی ہے جبکہ آباد کاری کے اسرائیلی منصوبے کے حوالے سے جاری تعطل کے باعث صدر اوباما کی کوششوں پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس کارروائی کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات کی روک تھام کے لئے وہ واضح سکیورٹی ضروریات کا تعین کریں گے۔
نیتن یاہو نے منگل کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران کلنٹن نے اسرائیلی سکیورٹی کے لئے امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم اسرائیلی ریاست کے دفاع اور اسرائیلی عوام کے تحفظ کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔ ہمارے پیشِ نظر باتوں میں سے یہ اہم ترین ہے کہ ان مذاکرات میں اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل ہے۔‘‘
یہ بات بھی اہم قرار دی جا رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ امن عمل کے لئے امریکی صدر باراک اوباما آج محمود عباس اور بینجمن نیتن یاہو سے ہی علیحٰدہ علیحٰدہ ملاقاتیں نہیں کر رہے بلکہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور مصر کے صدر حسنی مبارک سمیت مشرق وسطیٰ کے سفارتی گروپ کے نمائندے ٹونی بلیئر سے بھی مل رہے ہیں۔ یہ ملاقاتیں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین براہ راست مذاکرات میں مدد دینے کے لئے ترتیب دی گئی ہیں۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی مندوب جارج مچل نے صحافیوں سے گفتگو میں یقین ظاہر کیا ہے کہ یہ مذاکرات ایک سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان براہ راست مذاکرات کا یہ دور 20 ماہ بعد دوبارہ شروع ہو نے جا رہا ہے۔
اُدھر اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یروشلم کے بعض حصے فلسطینیوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ مغربی یروشلم اور اس کے قریبی 12 یہودی علاقے اسرائیل ہی کے پاس رہیں گے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورِ اقتدار کے آغاز سے ہی مشرق وسطٰی کے امن عمل کو اوّلین ترجیحات میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔ اگرچہ ان کے پیشرو اس حوالے سے ناکام رہے ہیں لیکن اوباما کامیابی کے لئے پراُمید دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے عہدہء صدارت سنبھالنے کے دو دن بعد ہی مشرق وسطیٰ کے لئے اپنا ایک خصوصی مندوب مقرر کر دیا تھا جبکہ بطور صدر انہوں نے اپنی پہلی ٹیلی فون کال فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو ہی کی تھی۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی