اسرائیل کا انتہائی قدامت پسند وزیر دفاع
30 مئی 2016اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کابینہ نے انتہائی دائیں بازو کے اور قوم پرست رہنما ایویگڈور لیبرمین کی پارٹی کو حکومتی اتحاد میں شامل کرنے کا فیصلہ جبکہ کابینہ نے متفقہ طور پر ایویگڈور لیبرمین کو نیا وزیر دفاع منتخب کر لیا ہے۔
قبل ازیں چار برس تک اسرائیل کے وزیر دفاع رہنے والے موشے یالون نے اسرائیلی وزیر اعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اسرائیل پر خطرناک اور انتہاپسند عناصر قبضہ کر چکے ہیں۔‘‘ اس بیان کے بعد موشے یالون نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
دوسری جانب اس انتہائی دائیں بازو کے اس سابق وزیر خارجہ کو وزیر دفاع بنانے پر فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ دو ریاستی امن منصوبے پر پیش رفت کا سلسلہ سن 2014ء سے معطل ہے اور اب لیبرمین کے وزیر دفاع بننے کے بعد اس کی بحالی مزید غیر یقینی ہو گئی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رضائنہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے فلسطینی تنازعے کا حل ناگزیر ہو چکا ہے۔
ماضی میں لیبر مین حماس کے حوالے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کو حماس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے، جیسا ’’دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپانیوں کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
تاہم اب اس سابق وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ملکی اور علاقائی سلامتی کی خاطر دانشمندانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے۔ لیبرمین کے اس بیان کے حوالے سے ابورضائنہ کا کہنا تھا کہ یہ وقت بتائے گا کہ وہ اپنے قول پر کتنا عمل کرتے ہیں۔
لیبرمین اس سے قبل سن 2009 سے سن 2012 تک وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم بدعنوانی کے الزام میں انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر گیارہ ماہ بعد وہ دوبارہ عملی سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے تھے۔
ایوگڈور لیبرمین کی طرف سے وزارت دفاع کا منصب سنبھالنے کے بعد اب اسرائیلی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کو اکسٹھ اراکین کی جگہ چھیاسٹھ کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے ہی نیتن یاہو اس کوشش میں تھے کہ لیبرمین کو اپنی حکومت کا حصہ بنا سکیں اور انجام کار وہ اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔