’اسلامائزیشن سے بچاؤ‘: پولینڈ کی سرحد پر مسیحی مذہبی عبادت
7 اکتوبر 2017اس اجتماع کے منتظمین کا کہنا ہے کہ آج بروز ہفتہ ملکی سرحد پر مسیحی باشندوں کی طرف سے کیتھولک عقیدے کے مطابق ’تسبیح خوانی‘ کا مقصد پولینڈ اور دنیا بھر کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے دعا کرنا ہے۔ ایک بشپ کے ماتحت مذہبی حلقے کے نزدیک یہ خالصتاﹰ مذہبی نوعیت کا پروگرام ہے، تاہم کیتھولک مسلک ہی سے تعلق رکھنے والے بعض مسیحی شہری اسے ’اسلام کے خلاف ہتھیار‘ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
سات اکتوبر وہ دن ہے جب کیتھولک مسیحی باشندے ’آور لیڈی آف دی روزری‘ نامی مذہبی تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار سن 1571 میں ہونے والی جنگِ لیپانٹو میں مسیحیوں کے ہاتھوں عثمانی ترکوں کی شکست کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
پولینڈ میں اس اجتماع کی منتظم ’سولو دیوس باستا‘ نامی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق لیپانٹو کی جنگ میں فتح کا سہرا اس ’مسیحی تسبیح خوانی‘ کے سر جاتا ہے، ’جس نے اس وقت یورپ کو اسلام کے تسلط سے بچا لیا تھا‘۔
پولینڈ میں کرائے گئے متعدد عوامی جائزوں کے مطابق وہاں اسلام کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہےاور پولینڈ کی قدامت پسند حکومت ملک میں مہاجرین کی آمد کی بھی مخالف ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس اجتماعی عبادت میں خطے کے بشپ کے زیر اثر بیس کلیسائی علاقے حصہ لے رہے ہیں۔ منتظمین کو امید ہے کہ آخر تک اس عبادت میں لاکھوں شہری حصہ لیں گے۔ اس دوران پولینڈ کی بحیرہ بالٹک، یوکرائن، روس، لیتھواینا، سلوواکیہ، جرمنی، چیک جمہوریہ اور بیلاروس کے ساتھ مجموعی طور پر تین ہزار پانچ سو گیارہ کلو میٹر طویل ملکی سرحدوں پر زیادہ سے زیادہ مقامات پر یہ عبادت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولستانی بشپس کانفرنس کے ترجمان کے مطابق اس مذہبی تقریب کا مقصد عالمی امن کے لیے دعا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس تقریب کو مسلمان تارکین وطن کی آمد کے خلاف دعائیہ تقریب کی نظر سے دیکھنا غلط ہو گا۔‘‘
دوسری طرف قوم پرست کیتھولک کارکن مارچن دیبوفسکی کا دعویٰ ہے کہ ماضی کی طرح یورپ میں اسلام اور مسیحیت کے مابین مذہبی جنگ ایک بار پھر شروع ہو چکی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے دیبوفسکی کا کہنا تھا، ’’حقیقت تو یہ ہے کہ سرحدیں ہیں ہی نہیں۔ جرمن چانسلر میرکل نے انہیں وسیع پیمانے پر کھول دیا تھا۔ پولینڈ خطرے میں ہے۔ ہمیں اپنے خاندانوں اور اپنے گھروں کو ہر قسم کے خطرات سے بچانا ہے۔‘‘
دیبوفسکی نے مزید کہا کہ آسٹریا اور ہنگری نے اپنے ہاں مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے اپنی سرحدوں پر خار دار تاروں والی باڑیں لگائیں جبکہ پولینڈ میں دہشت گردی کے خطرے سے بچاؤ کے لیے ’دعا کی روحانی باڑ‘ لگائی جا رہی ہے۔