1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی دنیا میں پولیو مہم کی طرف رویے میں تبدیلی کی نشاندہی: ڈینس کنگ

Kishwar Mustafa10 اپریل 2013

ابھی حال ہی میں اسلامی ممالک کی طرف سے مصری دارالحکومت قاہرہ میں اقوام متحدہ کے ایماء پر مسلم دانشوروں اور علماء کی ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوا، جس میں پولیو کے خاتمے کی مہم کی بھرپور حمایت کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/18D6D

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو مہم کی ایک ٹیم کی حفاظت کرنے والے پولیس عملے پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک دوسرا زخمی ہو گیا ہے۔

مقامی پولیس کے ایک سینئر اہلکار طاہر ایوب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ آج بدھ کو شہر مردان کے نزدیک پارہوتی میں پیش آیا۔ وہاں کل منگل سے انسداد پولیو کی ایک سہ روزہ مقامی مہم جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مہم میں حصہ لینے والی ٹیم ایک مرد اور دو خواتین کارکنوں پر مشتمل تھی۔ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے اس ٹیم کے ارکان پر فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں ٹیم کی حفاظت کرنے والا ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک دوسرا زخمی ہو گیا۔ تاہم طاہر ایوب کے مطابق اینٹی پولیو ٹیم کے اراکین محفوظ رہے۔ اس واقعے کی مقامی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار ذکاء اللہ خٹک نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

Impfungen gegen Kinderlähmung in Pakistan
پاکستان میں پولیو کے شکار بچوں کی صورتحال تشویش ناک ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں کچھ عرصے سے انسداد پولیو کی مہم کو ناکام بنانے کی کوششوں اور اس مہم میں شامل کارکنوں پر حملوں میں اضافہ کس امر کی نشاندہی کرتا ہے، اس بارے میں اقوام متحدہ کے پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے تحت پاکستان میں جاری منصوبوں کی گزشتہ برس دسمبر تک نگرانی کرنے والے چیف رابطہ کار ڈینس کِنگ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا،’عوام حکومت کی طرف سے صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہ خوف کا شکار ہو کر پولیو مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے والے انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ دو طرح کا ہے۔ ایک یہ کہ اکثر والدین پولیو کے ٹیکے لگانے والی ٹیموں پر بھروسہ نہیں کرتے اور اپنے بچوں کو ٹیکے لگانے کی اجازت نہیں دیتے تاہم ایسے واقعات کی شرح بہت کم ہے۔ دوسرا مسئلہ حکومت کی طرف سے طبی ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی کا ہے، جس کے سبب عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی بہت کم ہے‘۔

پاکستان، افغانستان اور نائجیریا تین ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو کی بیماری اب بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں 2011ء کے دوران پولیو کے 198 نئے کیسز سامنے آئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران پولیو وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی یہ سب سے زیادہ سالانہ تعداد تھی اور کسی دوسرے ملک میں ایک سال میں اس بیماری کے اتنے زیادہ واقعات ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

Nigeria Impfung Kinder Kind
نائجیزیا وہ تیسرا ملک ہے جہاں پولیو کے خاتمے کے خلاف مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہےتصویر: AFP/Getty Images

اس حوالے سے ڈینس کِنگ کہتے ہیں،’ان تینوں ممالک، خاص طور سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی پیش قدمی کو بہت زیادہ عالمی تائید حاصل ہے۔ ابھی حال ہی میں اسلامی ممالک کی طرف سے مصری دارالحکومت قاہرہ میں اقوام متحدہ کے ایماء پر مسلم دانشوروں اور علماء کی ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوا، جس میں پولیو کے خاتمے کی مہم کی بھرپور حمایت کی گئی تھی۔ کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ پولیو ویکسین محفوظ ہے اور اس میں کوئی ممنوعہ یا حرام اجزاء شامل نہیں ہیں۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم OIC کے تقریباٍ تمام رکن ممالک نے پولیو کے خلاف مہم کی مدد سے اس بیماری سے نجات حاصل کر لی ہے، سوائے پاکستان، افغانستان اور نائجیزیا کے۔ اب عالمی برادری، خاص طور سے اسلامی دنیا کے پولیو کے خلاف مہم سے متعلق رویے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی ہو رہی ہے‘۔

تاہم ڈینس کِنگ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے پاکستان کو بہت زیادہ مالی مدد مل رہی ہے اور اسلامی ترقیاتی بینک نے بھی 200 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پولیو کے خلاف مہم کے لیے سرگرم ٹیموں کو تحفظ فراہم کرے اور عوام تک ان کی رسائی کو ممکن بنائے۔

گزشتہ جنوری میں پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو کی مہم سے منسلک دو طبی کارکن، ایک پولیس اہلکار اور پولیو کے انسداد کے لیے کام کرنے والے ایک فلاحی ادارے کے سات اہلکار تین مختلف واقعات میں دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے تھے۔

km/mm (AFP)