اسلامی نطریاتی کونسل میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ثبوت پر بحث
18 ستمبر 2013پاکستان میں گزشتہ ہفتے کے دوران ایک کمسِن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے سے عوامی سطح پر خاصا رنج اور غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی مظاہروں میں ایک مرتبہ پھر جنسی زیادتی کے واقعات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو مرکزی شہادت کے طور پر لیے جانے کا مطالبہ شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں اراکین ایک مرتبہ پھر ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت اور اہمیت پر گفتگو کریں گے۔
رواں برس مئی کے مہینے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کوبطور مرکزی شہادت کے طور پر لینے کو مسترد کرتے ہوئے سن 1979 کے شریعہ قوانین کی حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ یہ شرعی قوانین فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ایک آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیے تھے اور بعد میں انہیں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا تھا۔ اس قانون میں سقم کی وجہ سے جنسی زیادتی کے بیشتر ملزمان عدالتوں سے رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
بدھ کے روز ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں یہ سوال زیر غور ہو گا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کو جنسی زیادتی کے مقدمے میں اہم ترین ثبوت کے طور پر یا پھر اس کی موجودہ ثانوی حیثیت کو برقرار ہی رہنے دیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن مفتی محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ اراکین اس معاملے پر نظرثانی کے امکان کا جائزہ لیں گے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو یہ عوامی منشا کے تحت ہو گا۔ ضیا الحق کے متعاوف کردہ قوانین میں جنسی زیادتی کے مقدمے میں چار بالغ اور پرہیزگار افراد کی گواہی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ممتاز وکیل رضوان خان کا کہنا ہے کہ بنیادی قوانین میں تبدیلی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی زیادتی کی شکار خواتین کو انصاف مشکل سے ہی مل سکے گا۔
مئی میں ڈی این اے ٹیسٹ کو مسترد کرتے وقت یہ دلیل دی گئی تھی کہ قران میں درج کسی بھی طے شدہ معاملے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے پر پاکستان میں تقریباً ہر طبقے کے دانشوروں نے تنقید کی تھی۔ بعض دانشوروں کے مطابق اسلام میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل اس اصول کے تحت اجتہاد کرنے کی مجاز ہے۔ راولپنڈی کی فاطمہ جناح یونیورسٹی کی ٹیچر شہلا تبسم کا کہنا ہے کہ ضیا الحق کے متعارف شدہ قانون کی وجہ سے ہزاروں خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو کر بھی انصاف حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ شہلا تبسم کا مزید کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کس طرح چار گواہان کو عدالت میں پیش کر سکتی ہے۔