اسلام آباد میں امام بارگاہ پر حملہ، کم از کم تین افراد ہلاک
18 فروری 2015زخمیوں کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز PIMS پہنچا دیا گیا جہاں ترجمان ڈاکٹر عائشہ خان نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ ایک زخمی آپریشن تھیٹر میں ہی دم توڑ گیا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے باقی دو افراد موقع پر ہی مارے گئے تھے۔
ڈاکٹر خان کے بقول ایک زخمی کی حالت نازک ہے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق خود کُش حملہ آور نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی فائرنگ شروع کر دی تھی۔
اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جس دوران حملہ آور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کر رہا تھا، اُسی وقت مسجد کے اندر موجود نمازیوں نے مسجد کا دروازہ اندر سے بند کر دیا تھا۔
پاکستان میں جنوری کے آخر میں صوبہ سندھ کے شہر شکارپور میں طالبان سے قربت رکھنے والے ایک دہشت گرد گروہ کی طرف سے شیعہ مسلمانوں کی ایک امام بارگاہ پر کیے گئے ایک خونریز حملے میں بھی ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ گزشتہ ہفتے شمال مغربی پاکستان میں بھی ایک شیعہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں بھی کم از کم 23 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ ملک میں اس نوعیت کے فرقہ ورانہ حملوں کی تازہ ترین مثال ہے۔ پاکستان گزشتہ دو برسوں سے فرقہ ورانہ تشدد کی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ یہ حملے خاص طور سے انتہا پسند سُنی مسلم مسلح گروپوں کی طرف سے شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں قریب ہر پانچواں مسلم شہری ایک شیعہ مسلمان ہے۔
گزشتہ سال جون سے پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ پاکستانی فوج اپنے اس آپریشن کی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے، جس میں فوج کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک دو ہزار سے زائد عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی اصل تعداد اور اُن کی شناخت کے بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں پشاور میں ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں قریب 150 افراد کی ہلاکت کو، جن میں سے زیادہ تر معصوم بچے تھے، ملک کے اندر اور بیرون ملک پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تناظر میں گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں سزائے موت دیے جانے پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد سے اب تک متعدد دہشت گردوں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ اقدام بھی عسکریت پسند گروپوں کے غصے میں اضافے کا سبب بنا ہے۔
دریں اثناء پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں اسلام آباد کی امام بارگاہ پر آج کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔