اسلام جرمن معاشرے کا حصہ بن چکا ہے، میرکل
27 ستمبر 2012جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان کے ساتھ انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے بات چیت میں کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے حال ہی میں متنازعہ اسلام مخالف فلم کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں سے خود کو دور رکھا۔ میرکل نے اس دوران کہا کہ جرمنوں کو اسلام کے حوالے سے فراخدلانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلام اس ملک کا حصہ ہے۔ اس سے قبل سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف نے 2010ء میں یہ کہتے ہوئے کہ اسلام جرمنی کا حصہ بن چکا ہے، سب کو حیران کر دیا تھا۔
چانسلر میرکل نے اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے ارکان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے خبردار بھی کیا کہ اسلام مخالف فلم کے خلاف جرمنی میں بھی مظاہرے کیے جا سکتے ہیں۔ میرکل نے مسلم دنیا میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے تناظر میں مزید کہا ’’ ہمیں اس معاملے میں بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ انتہاپسندوں اورامن پسند افراد کے مابین فرق رکھنا ضروری ہے‘‘۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قوانین کا احترام کرنا ہر شہری پر فرض ہے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو اسے قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
میرکل کے بقول شدت پسند جرمنی میں اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ’’ تشدد ہر جگہ قابل مذمت ہے اور اگر جرمنی میں کسی نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘‘۔
جرمن حکومت نے اسلام مخالف فلم پر شدید تنقید کی تھی۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اسے ’اسلام مخالف ایک نفرت آمیز ویڈیو‘ قرار دیا تھا۔ اس دوران جرمن حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ اگر فلم کی اسکریننگ کی کوشش کی گئی تو اس پر پابندی لگانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تیونس کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ چانسلر کے ترجمان اسٹیفن زائبرٹ نے وجوہات بتائے بغیر کہا کہ تیونس کے حکام سے صلاح و مشورے کے بعد ہی یہ دورہ منسوخ کیا گیا ہے۔ تاہم فائنینشیل ٹائمز جرمنی کی رپورٹ کے مطابق اس منسوخی کے پس پردہ سلامتی کی صورتحال ہے۔ اسلام مخالف فلم کے بعد تیونس میں سلامتی کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔ انگیلا میرکل کا یہ دورہ اکتوبر کے اوائل میں طے تھا۔
ai / sks ( Reuters)