اسلام ملکی دستورکا ماخذ نہیں: تیونس کی پارلیمنٹ کا فیصلہ
5 جنوری 2014سن 2011 میں عرب اسپرنگ کے تحت انقلابی عمل کا آغاز کرنے والے ملک تیونس میں پارلیمنٹ میں نئے ملکی دستور کی شق وار منظوری کے دوران ملکی دستور کے ماخذ کے طور پر اسلام کو دستور میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔ مبصرین نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اسلام پسند جماعت النہضہ کی جانب سے اِسے ایک بڑا سمجھوتہ قرار دیا ہے۔ تاہم اِس دوران ریاست کے سرکاری دین کے طور پر اسلام کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عرب اسپرنگ کے تحت انقلاب لانے والے ملکوں میں صرف تیونس ہی پرتشدد حالات و واقعات سے بچا ہوا ہے۔ ملکی سیاستدانوں نے پیدا شدہ سیاسی تعطل کو طویل مذاکراتی عمل سے حل کر لیا ہے۔
پارلیمنٹ میں نئے دستور کی شق وار منظوری کا عمل ہفتے کے روز شروع ہوا ہے۔ نئے دستور کی کُل 146 شقیں یا آرٹیکلز ہیں اور ہفتے کے روز اِن میں سے 12 کی منظوری دی گئی ہے۔ دستور کی منظوری کے لیے 14 جنوری حتمی تاریخ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 14 جنوری تک دستور کی منظوری خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ شق وار منظوری کا عمل بحث و تمحیص کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ اِس باعث امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ دستور کی منظوری کے لیے حتمی تاریخ کو آگے بڑھایا جانا یقینی ہے۔ دستور کی منظوری کے لیے 14 جنوری کی تاریخ اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ اُسی دن طویل عرصہ تیونس پر آمرانہ حکومت کرنے والے زین العابدین بن علی اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔
ہفتے کے روز پارلیمنٹ نے پہلی شقیں فوراً منظور کر لیں اور اِن کے مطابق تیونس ایک جمہوریہ ہو گا اور اِس میں قانون کی حکمرانی ہونے کے علاوہ اسلام سرکاری مذہب ہو گا۔ اِس کے بعد اراکین پارلیمنٹ نے اگلی دو شقوں کو مسترد کر دیا اوراِس میں دستور کا ماخذ دینِ اسلام قرار دینے کے علاوہ قران و سنت کو ملکی دستور کی اساس بھی قرار دینے کو تجویز کیا گیا تھا۔
ان شقوں پر گرماگر م بحث کے دوران سیشن کی تعطلی کا امکان بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اسلام پسند النہضہ کی حامی ایک چھوٹی سیاسی جماعت کے رکن محمد حمادی نے اِن شقوں کی زور شور سےحمایت کی تو کئی سیکولر اراکین نے مخالفت شروع کر دی۔ سیکولر سیاسی گروپ ڈیموکریٹک الائنس کے محمود البارودی کے مطابق ان شقوں کو دستور میں شامل کرنے سے جدیدیت کی نفی ہوگی۔
ہفتے ہی کے روز نئے دستور کی شق نمبر چھ کو منظور کیا گیا۔ کئی اراکین کے نزدیک یہ انتہائی اہم دستوری شق ہے کیونکہ اس کے تحت ریاست کو مذہب کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے۔ اسی شق کے تحت مقدسات کا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور یہی شق ضمیر کی آزادی کی محافظ بنائی گئی ہے۔
دستور کی شق چھ ہی کے تحت مساجد اور دوسری عبادت گاہوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ تیونس کے نئے دستور میں ضمیر کی آزادی کا وعدہ بھی اسی شق میں کیا گیا ہے۔ اِس مناسبت سے وفا پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان آزاد بیدی کا کہنا تھا کہ یہ آزادی خاصی مبہم ہے کیونکہ اِس کا سہارا لے کر شیطان کے چیلے اور بت پرست آزادانہ اپنی عبادات جاری رکھ سکیں گے۔
تیونس کی لیگ آف ہیومن رائٹس نے بھی نئے دستور کی منظور کی جانے والی شق چھ کو غیر واضح اور مبہم قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق ریاست کو مذہب اور دیگر مقدسات کا محافظ قرار دے کر اِس کی تشریح ایک نا ختم ہونے والے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
تیونس میں انقلاب کے بعد اکتوبر سن 2011 میں پارلیمانی انتخابات کروائے گئے تھے۔ اُن انتخابات میں النہضہ پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ گزشتہ برس ایک دو سیاسی افراد کی ہلاکتوں سے سیاسی چپقلش شروع ہو گئی تھی اور اِس کو طویل مذاکرات کے بعد نئے انتخابات، دستور کی منظوری اور ایک غیر جانبدار وزیراعظم کے نام پر اتفاق سے ختم کیا گیا تھا۔ عبوری عرصے کے لیے محمد جمعہ کے نام پر اتفاق کیا گیا تھا۔