اسمارٹ لاک ڈاؤن: ’کیا یہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے‘
16 جون 2020پاکستان میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اس کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار آٹھ سو انتالیس تک پہنچ چکی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی نے ملک کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے شدید متاثرہ حصوں میں لاک ڈاون کی سفارش کی تھی۔ ان علاقوں میں اسلام آباد، کراچی، لاہور گھوٹکی، سوات، پشاور، کوئٹہ اور گوجرانوالہ بھی شامل ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کے تحت وبا سے شدید متاثرہ علاقوں کو پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کی نگرانی میں پندرہ دنوں کے لیے بند کیا جا رہا ہے، لوگوں کو ان علاقوں میں آنے یا جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ البتہ ان علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات والی دوکانیں کھلی رہیں گی۔
ادھر کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے پنجاب میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد پچپن ہزار آٹھ سو اٹھتر تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس کے صرف ایک شہر لاہور میں کورونا وائرس سے متاثرہ مصدقہ کیسزکی تعداد اٹھائیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں اس بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ایک ہزار سے بڑھ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: نہ ہسپتالوں میں جگہ، نہ آکسیجن سلنڈر میسر، مریض بدحالی کا شکار
یاد رہے گیارہ کروڑ کی آبادی والے اس صوبے میں حکومت کے پاس روزانہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بارہ ہزار ہے اور یہاں روزانہ کی بنیاد پر دس ہزار کے لگ بھگ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اس صوبے میں کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور گجرات بھی شامل ہیں۔
لاہور کے جن علاقوں میں منگل اور بدھ کی درمیانی رات اسمارٹ لاک ڈاؤن ہونے جا رہا ہے ان میں شاہدرہ، چونگی امر سدھو، اسلام پورہ، ، ابدالی چوک، شاد باغ، مزنگ، ہربنس پورہ، اندرون لاہور، کینٹ، ڈی ایچ اے، نشتر ٹاؤن ،علامہ اقبال ٹاؤن اورعسکری ٹین کے منتخب حصے بھی شامل ہیں۔
محکمہ صحت کے ایک اعلی افسر نے منگل کی شام ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ابھی تک حتمی طور پر یہ طے نہیں کر سکی ہے کہ کن کن علاقوں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کرنا ہے۔ ان کے بقول پولیس کی محدود نفری کے باعث بہت بڑے پیمانے پر موثرلاک ڈاؤن ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ''ہم نے اپنی تجاویز چیف سیکریٹری کو بھجوائی ہیں۔ ان کی منظوری کے ساتھ ہی کوئی حتمی فیصلہ ممکن ہو سکے گا۔ ‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفگتو کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔ ان کے بقول اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے مکمل لاک ڈاؤن۔ ان کے مطابق بدقسمتی سے حکومت کی کورونا کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اہم وفاقی وزیر کہتے رہے کہ کورونا سے زیادہ لوگ تو ٹریفک حادثات سے مر جاتے ہیں،جبکہ وزیر اعظم بھی صورتحال کی نزاکت کا اندازہ نہ کرتے ہوئے نہ گھبرانے کا کہتے رہے، وزیر اعظم عمران خان متضاد بیانات دے کر لوگوں کی کنفیوژن بڑھاتے رہے۔ ‘‘
’’حکومت کی طرف سے بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے صورتحال بہت سنگین ہو گئی ہے، پاکستان کا کوئی ضلع اب اس وبا سے محفوظ نہیں رہا ہے بلکہ اب تو اس کے اثرات تحصیل لیول پر بھی محسوس کيے جا رہے ہیں۔ بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی قلت پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے۔ '' مجھے خدشہ ہے کہ اگر حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ واضح طور پراہم فیصلے نہ کيے تو جولائی کے آخر تک کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد پینتیس لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ‘‘
مزید پڑھیے: پاکستان ميں کورونا کے تقريباً تيرہ سو گڑھ سيل کر ديے گئے
’’آزمائش کی اس گھڑی میں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس اپنے فیصلوں کو نافذ کروانے کے ليے رٹ بھی موجود نہیں ہے، اعتماد کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ عوام حکومتی اعلانات یا اعدادو شمار پر اعتبار نہیں کرتے۔ حکومت کی نا اہلی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ ‘‘
پاکستان کے ممتاز معالج اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلرڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کورونا کے حوالے سے پاکستان کے مستقبل کے منظر نامے کی نشاندہی کرنا آسان نہیں۔ آنے والے دنوں میں وائرس کتنا پھیلے گا اس کا انحصار عوام کے رویے پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤکو روکنے میں مدد ملے گی۔ ڈاکٹر جاوید اکرم کے خیال میں ملک میں کورونا وائرس کو روکنے کے ليے ایس او پیز کا سختی سے نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ''میرے خیال میں جس طرح دوسرے ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے اسی طرح پاکستان کی حکومت بھی اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
کورونا کے شکار مدثر نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب جب حکومتی غفلت سےحالات بگڑ گئے ہیں، ہسپتالوں میں جگہ نہ رہی اور آکسیجن سلنڈر سمیت ساری چیزوں کی قیمتیں ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں تو حکومت کو اسمارٹ لاک ڈاؤن کا خیال آ گیا ہے ان کے بقول،" وہ مکا جو لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیئے۔"