اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی ایم میں ایک بار پھر کشیدگی
27 اگست 2018حالیہ کشیدگی 24 اگست کو اس وقت شروع ہوئی جب پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق فوجی نے شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں میں کرفیو لگایا۔ پی ٹی ایم سوات کے رہنما علی حسن نے اس واقعہ کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری اطلاعات کے مطابق فورسز نے شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں میں چوبیس اگست کو غیر اعلانیہ کرفیو لگایا، جس کے خلاف عوام نے مظاہرہ کیا۔ چیک پوسٹ سے فائرنگ کی گئی جس سے ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ عوام نے پھر میرانشاہ میں دھرنا دیا۔ اتوار کے روز وہاں مقامی عمائدین اور انتظامیہ میں مذاکرات ہوئے اور اس کے بعد دھرنا ختم کیا گیا۔‘‘
اس دھرنے کے اختتام کے بعدپی ٹی ایم کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے درمیان ٹوئیٹر پر دعویٰ اور ردِ دعوی ٰ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پی ٹی ایم نے دعویٰ کیا کہ فورسز نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فائرنگ چیک پوسٹ سے کی گئی تھی۔ جب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ انہوں نے اتوار کو دھرنا اس وقت ختم کرایا جب حکام نے انہیں یقین دہانی کرائی کے کیپٹن ضرار جن پر مبینہ طور پر احتجاج کے دوران ایک لڑکے کو ہلاک کرنے کاالزام ہے، ان کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ اس خبر کے فوراﹰ بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک وضاحتی ٹوئیٹ جاری کی گئی جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عبدالغفور نے اس بات کی تردید کی کہ حکام نے کسی کے کورٹ مارشل کی کوئی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس پرمحسن داوڑ نے فوج پر اپنے وعدے سے پھرنے کا الزام لگایا۔ جواب میں آئی ایس پی آر نے کہا کہ انہیں وعدے سے پھرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ سچ جلد ہی آشکار ہوجائے گا۔
اس صورتِ حال میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی ایم پر الزام ہے کہ اس کے جلسوں میں فوج مخالف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ تاہم فوج نے کچھ مہینوں پہلے پی ٹی ایم کی طرف نرم رویہ اختیار کیا تھا۔ جس کے بعد پی ٹی ایم اور حکومتی افراد کے درمیان جرگے کے ذریعے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا تاہم یہ سلسلہ انتخابات کی وجہ سے ملتوی ہوگیا تھا۔ امید کی جارہی تھی کہ انتخابات کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا لیکن موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی ایم کے درمیان تناؤ بڑھے گا۔
پی ٹی ایم کے لیے ہمدردی رکھنے والے سینیٹر عثمان کاکڑ کے خیال میں پی ٹی ایم کے خلاف کریک ڈاؤن کے اشارے مل رہے ہیں: ’’اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ ان کے منفی کاموں کو زیرِ بحث لایا جائے۔ وہ کرفیو لگاتے ہیں، لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں، فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک و زخمی کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور جب ان مسائل پر بحث کی جائے تو وہ ہمیں ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے پی ٹی آئی اور باپ کے علاوہ ساری جماعتیں نا قابلِ قبول ہیں اور ناپسندیدگی کی اس فہرست میں پی ٹی ایم سب سے اوپر ہے۔‘‘
پی ٹی ایم کے رہنما علی حسن بھی عثمان کاکڑ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں: ’’انتخابات کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ایم سے بات چیت کرے گی کیونکہ اس تحریک کے دو افراد پارلیمنٹ کے رکن بن چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست ہر مسئلے کو صرف طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں پی ٹی ایم کے کچھ مطالبات ایسے ہیں جن کو حل کرنا اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکل ہے: ’’میرے خیال میں پی ٹی ایم کے کچھ مطالبات کو مان لیا گیا ہے، جیسا کہ چیک پوسٹوں کی تعداد کم کرنا لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک اہم نکتہ گمشدہ افراد ہیں۔ وہ اس مسئلے کو اٹھاتے رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ اس کو حل کرنے سے قاصر رہے گی جس کی وجہ سے دونوں میں کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کے حامی تجزیہ کار پی ٹی ایم کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور کئی تو سوشل میڈیا پر اسے ملک دشمن بھی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ایم کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں کرے گی بلکہ وہ انہیں بے نقاب کرے گی: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی ایم فوج کو بدنام کرنے کا ایجنڈا لے کر چل رہی ہے۔ ان کے تانے بانے دوسرے ممالک سے ملتے ہیں۔ حکومت ان کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرے گی اور انہیں قبائلی عوام کے سامنے بے نقاب کرے گی تاکہ سیاسی طریقہ سے ان سے نمٹا جائے۔‘‘