اسپین میں کھیرے کے برآمد کنندگان کی سرگرمیاں معطل
28 مئی 2011اسپین سے درآمد کردہ کھیروں میں زہریلے بیکٹیریا ’اے ہیک‘ کی موجودگی کی وجہ سے جرمنی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔ ہفتے کے روز شمالی جرمنی سے تعلق رکھنے والی تین مزید عمر رسیدہ خواتین لقمہِ اجل بن گئیں۔
یورپی کمیشن کی جانب سے مزید بتایا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے ہاں اے ہَیک جراثیم سے آلودہ کھیروں کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جنوبی اسپین کے دو صوبوں المیریا اور مالاگا کے دو زرعی رقبوں سے زمین، پانی اور مصنوعات کے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے:’’یہ جاننے کے لیے کہ آیا اس جراثیم کے کوئی اور بھی ماخذ ہیں، تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اور قسم کے کھیرے کے سلسلے میں بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جو ہالینڈ یا ڈنمارک سے جرمنی لا کر آگے مختلف مقامات پر تقسیم کیا جاتا ہے۔‘‘
یورپی کمیشن کی جانب سے جاری شُدہ بیان کے مطابق ہسپانوی کھیروں کی ایک کھیپ ڈنمارک بھی پہنچی تھی تاہم حکام نے بروقت اس سبزی کا سراغ لگا لیا اور اُسے مارکیٹ سے ہٹا لیا۔ بیان کے مطابق ڈنمارک کے حکام نے کمیشن کو یقین دلایا ہے کہ ہسپانوی کھیرے آگے یورپی یونین کے کسی تیسرے ملک کو نہیں بھیجے گئے۔
جرمنی کے بیماریوں سے متعلق قومی مرکز کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران HUS یعنی ہیمولیوٹک یوریمک سنڈروم نامی مہلک بیماری کے مزید ساٹھ سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، جس سے جرمنی میں اس جراثیم سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 276 ہو گئی ہے۔ اب تک کم از کم دو افراد کا اسی بیماری کے باعث انتقال بھی ہو چکا ہے۔
کمیشن نے مزید بتایا ہے کہ سویڈن میں اس بیماری کے اب تک 25 کیسز سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے دَس افراد میں HUS نامی بیماری کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ڈنمارک میں سات افراد اس جراثیم سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے تین میں اس بیماری کی علامتیں نظر آ رہی ہیں۔ برطانیہ سے رپورٹ کیے گئے تین کیسز میں سے دو میں یہ بیماری پھیلنا شروع ہو چکی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عابدحسین
اسپین سے درآمد کردہ کھیروں میں زہریلے بیکٹیریا ’اے ہیک‘ کی موجودگی کی وجہ سے جرمنی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔ ہفتے کے روز شمالی جرمنی سے تعلق رکھنے والی تین مزید عمر رسیدہ خواتین لقمہِ اجل بن گئیں۔