کچھ عرصہ پہلے تک ہم بے دریغ پیسے لٹاتے تھے۔ جو چاہتے تھے خرید لیتے تھے۔ قیمت دیکھتے تھے پر اس کی اتنی فکر نہیں کرتے تھے۔ آپ ہمیں پاپا کی پرنسس نہ سمجھیں۔ ہم اپنے پیسے خود کماتے ہیں۔ ان پیسوں سے نہ صرف ہم اپنا خرچ اٹھاتے ہیں بلکہ گھر کی کچھ ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے ہم نے پچھلے کچھ مہینوں میں اپنی ضروریات کافی حد تک کم کر لی ہیں۔ ہماری گروسری لسٹ سے بہت سی چیزیں غائب ہو چکی ہیں اور بہت سوں کے برانڈز تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہر ماہ ہم پہلے سے زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں جبکہ ہماری بچت نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں بہت سے لوگوں کا کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم پھر بھی خوش نصیب ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا بائیس فیصد طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان لوگوں کے پاس زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات بھی موجود نہیں ہیں۔ ہمارے پاس بَھرا پُرا گھر ہے، گاڑی ہے، اور ان دونوں کو چلانے کے لیے نوکری بھی ہے۔ ہم ہر چھوٹے بڑے موقع پر اپنی حیثیت کے مطابق نئے کپڑے اور جوتے بھی بنا لیتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی گھر آ جائے تو اس کی اچھی سی خاطر تواضع بھی کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں ہر روز زندہ رہنے کے لیے دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
ان سے الگ ایک اور طبقہ بھی ہے جسے مہنگائی سے زرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ اس طبقے کے لیے پاکستان رہنے کے لیے بہترین ملک ہے۔ وہ یہاں شاہوں سی زندگی گزارتے ہیں۔ چند ہزار روپے تنخواہ پر رکھے ہوئے ملازم ان کا ہر حکم بجا لاتے ہیں۔ ان کی گروسری سبزی منڈی یا عام سبزی کی دکانوں کی بجائے شاپنگ مالز یا آن لائن ایپس پر ہوتی ہے جہاں پہلے ہی مہنگی ہوئی اشیاء کو مزید مہنگا کر کے بیچا جاتا ہے۔ یہ کافی پینے جاتے ہیں تو ان کا بِل کسی مزدور کی ماہانہ اجرت کے برابر ہوتا ہے۔
ملک کی مشہور ایکٹرس کپڑوں کا برانڈ شروع کرے تو یہ طبقہ ان کی ڈیزائن کی ہوئی ہر چیز چند منٹوں میں خرید لیتا ہے۔ اگرچہ ان کے برانڈ پر سب سے سستا کرتا تیرہ ہزار روپے کا تھا۔ ساتھ شلوار ملا لیں تو چوبیس ہزار، دوپٹہ لینا ہو تو اس کے ساڑھے تین ہزار الگ سے۔ یہ تینوں رقمیں کچھ لوگوں کی پورے مہینے کی تنخواہیں ہو سکتی ہیں۔
ہم خیر اپنی اور اپنے جیسوں کی بات کرتے ہیں جن کی صبح شام کی پریشانی میں گزرتی ہے اور شام اگلے روز کے بارے میں سوچتے ہوئے کٹتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال کے پہلے نصف میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح تینتیس فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا یہ خدا جانتا ہے۔ عوام کی بس ہو چکی ہے۔ تندور کی روٹی اور نان بھی عیاشی میں شامل ہو چکے ہیں۔ پہلے خواتین سالن گھر میں پکا کر روٹی باہر سے منگوا لیا کرتی تھی۔ اب چاروناچار اٹھتی ہیں۔ آٹا گوندھتی ہیں اور گھر بھر کے لیے روٹیاں بناتی ہیں۔ گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ موٹر سائیکل نکالیں تب خرچہ، گاڑی نکالیں تب خرچہ، پبلک ٹرانسپورٹ کو تو چھوڑ ہی دیں۔ سولہ فروری سے پیٹرول کی قیمت 272 روپے فی لیٹر ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ بقیہ چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھنا شروع ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف تنخواہیں وہی ہیں لیکن ان کی قدر پہلے سے کئی گنا کم ہو چکی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست کا فون آیا۔ پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں پھر وہی مہنگائی کا رونا۔ کہنے لگا کہ مہنگائی اس قدر ہو گئی ہے کہ کچھ بھی خریدتے ہوئے دس بار سوچنا پڑتا ہے۔ وہ مہینے میں ایک دو بار اپنے گھر کے قریب ایک فوڈ پوائنٹ سے سستا سا زنگر برگر کھانے کی عیاشی کر لیتا تھا۔ کہنے لگا اب اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ زنگر برگر تو اس نے اپنی زندگی سے نکال دیا لیکن اپنی گاڑی کا خرچہ تو اسے ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ پیٹرول کی کہانی تو بیان ہو گئی۔ گاڑی کی سروس، اور پنکچر وغیرہ کی قیمتیں بھی پہلے سے دگنی تگنی ہو چکی ہیں۔
اس مہنگائی میں وہی لوگ چین میں ہیں جنہیں ان کے پیارے بیرونِ ملک سے پیسے کما کما کر بھیج رہے ہیں ورنہ اس ملک میں رہتے ہوئے پیسے کمانا اور اس سے روزمرہ کے اخراجات چلانا نا ممکن ہو چکا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس موضوع پر بات کرنا بھی لوگ باعثِ شرمندگی سمجھتے ہیں۔ کوئی مہنگائی کی بات کرے تو لوگ سمجھتے ہیں شاید اس کے گھر کھانے کو بھی کچھ موجود نہیں ہے یا وہ ان سے پیسے مانگنے کے لیے تمہید باندھ رہا ہے۔ حالانکہ اندر سے سب ستائے ہوئے ہیں۔ سوچیں گے تو بولیں گے۔ بولیں گے تو ایک دوسرے کا ساتھ بنیں گے اور اس کے بعد منظم ہو کر اس حکومت سے پوچھیں گے کہ کب تک اپنا ہی سوچتے رہو گے۔ پیچھے ہٹو، اب ہماری باری ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔