اعصام الحق: میچ تو نہ جیتے، دل جیت لئے
14 ستمبر 2010ریڈیو ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں اعصام کا کہنا تھا کہ انہوں نے رواں برس ہی ڈبل مقابلوں کو سنجیدگی سے لینے کا فیصلہ کیا اور کامیابیوں نے بھی ان کے قدم چومنا شر وع کر دئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری جان لڑانے کے بعد فائنل ہارنے کا افسوس تو ضرور ہے مگر یہ اُن کے کیریئر اور پاکستان ٹینس کے لئے بڑا دن تھا کیونکہ اُن کے گرینڈ سلیم فائنل کھیلنے سے ملک میں نوجوان کھلاڑیوں کی ضرور حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی۔
30سالہ اعصام کے لئے یہ سال کامیابیوں کا پیغام لے کر آیا۔ وہ یو ایس اوپن کے فائنلز سے پہلے رواں برس نہ صرف ومبلڈن کے کوارٹر فائنلز تک پہنچے بلکہ اپنے کیریئر کا اولین ٹائٹل ساﺅتھ افریقن اوپن جیتنے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔
عالمی نمبر ایک راجر فیڈرر اور شہرہء آفاق جڑواں بھائیوں کی جوڑی برائن برادرز کو بھی اے ٹی پی ٹورنامنٹ میں شکست دینے کا اعزاز ان کے حصے میں آیا۔ فتوحات کے اس سفر میں بھارت سے تعلق رکھنے والے روہن بھوپنا اعصام کے ہم سفر تھے۔
یو ایس اوپن کا فائنل چشم فلک کے لئے وہ منفرد نظارہ بھی لے کر آیا، جب ایک طرف چاند رات کو دوکانوں اور ہوٹلوں میں ٹی وی سیٹس کے سامنے عام پاکستانی ٹکٹکی باندھے کھیل میں جس ٹیم کی فتح کے لئے دعاگو تھے، سرحد کے دوسری جانب کروڑوں بھارتی بھی اسی کی حمایت پر کمربستہ تھے۔ پاکستانی ٹینس اسٹار کا اس بابت کہنا ہے کہ وہ کھیل کو سیاست اور سرحدوں سے بالاتر خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاک بھارت کرکٹ دونوں ممالک کے سیاسی معاملات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی مگر کھیل کو کھیل ہی سمجھا جائے، تو بہتر ہے:’’میری اور روہن بھوپنا کی زبان، کلچر اور مشاغل ایک ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے آف اور آن دی کورٹ بہت آسانیاں ہو گئی ہیں۔ ہم پہلے دو افراد ہیں، جو اپنے کیریئر کے ساتھ اپنے ملکوں کے نام روشن کرنا چاہتے ہیں مگر ٹینس کے ساتھ امن کا بھی پیغام دے رہے ہیں۔ یہ کھیل کی ہی خوبصورتی ہے کہ پاکستانی اور بھارتیوں نے یو ایس اوپن میں ایک ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے اعصام الحق کو گز شتہ ماہ حکومت پاکستان نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے سول ایوارڈ ستارہء امتیاز سے نوازا تھا۔ وہ سکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان اور کرکٹ ہیرو عمران خان کے بعد یہ مقام پانے والے تیسرے پاکستانی اسپورٹس مین ہیں۔ اس بابت اعصام نے کہا جہانگیر اور عمران کے ساتھ اُن کا نام آنا بڑے فخر کی بات ہے۔
دوسری جانب یو ایس اوپن کے ڈبلز میں کامیابیوں کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سابق عالمی جو نیئر نمبر سات اعصام الحق کا سنگل ایونٹس میں کیریئر اب قصہء پارینہ بن جائے گا۔ یہی سوال جب خود اعصام کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے بارہ برس سنگل مقابلوں میں شرکت کی مگر کئی کامیابیوں کے باوجود پاکستان میں پذیرائی نہ مل سکی۔ موجودہ سنگل رینکنگ کے ساتھ وہ بڑے ٹورنامنٹ نہیں کھیل سکتے تھے، اِس لئے اس سال سے ڈبلز کو سنجیدگی سے لینے کا فیصلہ کیا:’’پہلے روز سے میرا مقصد ملک میں ٹینس کا فروغ رہا ہے، جو اُس وقت تک ممکن نہ تھا، جب تک میں بڑے ٹورنامنٹوں میں شرکت نہ کرتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اُن کا سنگلز کیریئر بھی ابھی ختم نہیں ہوا اور اگلے دو تین سال تک ڈیوس کپ وہ ملک کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔
ٹینس کا کھیل اعصام الحق قریشی کے خون میں شامل ہے۔ وہ سابق آل انڈیا ٹینس چیمپئن خواجہ افتخار کے نواسے ہیں جبکہ ان کی والدہ نوشین احتشام کئی برس تک پاکستان میں ٹینس کی قومی چمپئن رہیں۔
لاہور کے علاقے ماڈل ٹاﺅن میں احتشام الحق قریشی کے گھر آنکھ کھولنے والے اعصام کا کہنا تھا کہ وہ یو ایس اوپن میں رسائی کو اپنی فیملی کے نام کرتے ہیں کیونکہ اُن کے والدین نے اس سلسلے میں انتھک کوششیں کیں:’’میرے بہن بھائیوں کو بھی میری وجہ سے کئی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔‘‘
اعصام الحق قریشی نے اپنی مدد آپ کے تحت جمعہ کو نیویارک کے سینٹر کورٹ پہنچ کر نہ صرف ایک عالم بلکہ پاکستان میں ٹینس کے ناخداﺅں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، اس لئے ان کے کوچ رشید ملک کو امید ہے کہ ایک چیمپئن کو دیکھ کر کئی چیمپئن پیدا ہوں گے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امجد علی