افریقہ کے جہادی گروپوں کی ترجیحات
26 ستمبر 2013سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ژاں پیئر فیلیو کہتے ہیں، ’’نیروبی میں ہونے والے پرتشدد واقعے کو براعظم افریقہ میں جہادیوں کی جاری دیگر کارروائیوں سے جوڑنا سرا سر غلط ہوگا۔‘‘ فیلیو کے مطابق افریقہ میں سرگرم ہر ایک گروپ ( القاعدہ ان مغرب (AQIM)، نائیجیریا میں بوکو حرام اور صومالیہ میں الشباب) کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں جو مقامی نوعیت کی ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر سیاسی تجزیہ کار فیلیو کا مزید کہنا تھا، ’’ان میں سے ہر کوئی اپنے مقامی دشمن کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ ان گروپوں میں کوئی مربوط رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آپریشنل سمت ہے۔ صرف جہادی پروپیگنڈا ایک سا ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق القاعدہ ان مغرب اور بوکو حرام صرف جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ’اے کیو آئی ایم‘ اور بوکو حرام میں محدود پیمانے پر ہتھیاروں کی باہمی ترسیل ضرور ہوئی ہے اور نائجیریا کے چند عسکریت پسند ’اے کیو آئی ایم‘ کے کیمپوں میں ٹریننگ بھی حاصل کر چکے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ ایک متحدہ تحریک ہے۔
افریقی خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیروبی کے شاپنگ مال پر حملہ صومالیہ کی عسکری تنظیم الشباب نے کیا اور اس کو زیادہ تر مالی امداد خاص طور پر یورپ اور امریکا میں صومالی تارکین وطن کی طرف سے ملتی ہے۔
دوسری جانب بعض ماہرین کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں موجود القاعدہ کے رہنما افریقہ کو گیٹ وے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس علاقے تک اپنی توسیع چاہتے ہیں۔
لندن رائل یونائٹیڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کی ویلینٹینا سوریا کہتی ہیں، ’’ القاعدہ کی مرکزی قیادت کمزور ہو چکی ہے اور یہ دہشت گرد تحریک خود کو دوبارہ منظم اور جان ڈالنے کے لیے صحارا اور سب صحارا افریقہ میں اشتراک چاہتی ہے۔‘‘
ہارورڈ یونیورسٹی سے منسلک کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ سے تعلق رکھنے والے رابرٹ روٹبرگ کہتے ہیں، ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قومی اور مقامی تحریکیں ہیں لیکن ان کی فنڈنگ ایک ہی طریقے سے ہو رہی ہے۔
امریکا کے افریقی کمانڈ کے جنرل کارٹر ہیم کہتے ہیں، ’’الشباب، اے کیو آئی ایم اور بوکو حرام بذات خود ایک خطرہ ہیں۔ اس جنرل کے مطابق سب سے خطرے والی بات یہ ہے کہ یہ تینوں تنظیمیں ایک دوسرے کے تعاون کی تلاش میں ہیں۔