1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افریقی ہم جنس پرستوں کی پوپ سے درخواست: ’برداشت کی تبلیغ‘

عاطف توقیر22 نومبر 2015

افریقی ہم جنس پرست جو اپنے اپنے ممالک میں سڑکوں اور عدالتوں ہر جگہ سزاؤں کا شکار رہتے ہیں، پوپ فرانسس کے آئندہ دورہء افریقہ کے موقع پر صرف ایک درخواست لیے ہوئے ہوں گے: ’براہ مہربانی برداشت کی تبلیغ کیجیے‘۔

https://p.dw.com/p/1HAFk
Südafrika Malawi Demonstration Homosexualität Gleichberechtigung
تصویر: Rodger Bosch/AFP/Getty Images

افریقی ہم جنس پرستوں کو بے شمار معاشرتی مسائل اور عدم مساوات کا سامنا ہے اور کئی ریاستیں اپنے ایسے شہریوں کو صرف ان کی جنسی ترجیحات کی بنیاد پر معاشرتی دھارے سے قریب قریب کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی ہم جنس پرستوں کو کئی طرح کے تعصبات اور امتیاز کا سامنا رہتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوپ فرانسس اپنے دورہ افریقہ کے دوران ان ہم جنس پرستوں کو شاید اپنی ’برکات‘ تو نہ دے سکیں، تاہم افریقی ریاستوں کو ان افراد کے حوالے سے برداشت کی تعلیم ضرور دے سکتے ہیں۔

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 25 نومبر سے اپنا دورہ افریقہ شروع کر رہے ہیں، جس دوران وہ کینیا اور یوگنڈا کے علاوہ خانہ جنگی کے شکار ملک وسطی افریقی جمہوریہ بھی جائیں گے۔

Protest gegen Diskriminierung Homosexueller in Uganda in Kenia
براعظم افریقہ میں ہم جنس پرستوں کے لیے معاشرے میں جگہ انتہائی تنگ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

افریقی ممالک کی حکومتیں ہم جنس پرستوں کے لیے معاشرے میں جگہ پیدا کرنے کے حوالے سے عالمی مطالبات کو یہ کہہ کر ٹھکراتی رہیں ہیں کہ ’مغربی اخلاقیات‘ زبردستی افریقی معاشروں پر لاگو نہیں کی جا سکتیں۔

پوپ فرانسس نے اب تک ہم جنس پرستی کے حوالے سے کیتھولک کلیسا کا موقف تبدیل نہیں کیا اور ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کے خلاف چرچ میں اٹھنے والی آوازوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں، تاہم ان کا مختلف طبقات کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا چلن کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ہم جنس پرست مسیحی افراد میں خاصا مقبول ہے۔

یوگنڈا کے20 سالہ ہم جنس پرست جیکسن مُکاسا کے مطابق، ’’ہم چاہتا ہوں کہ پوپ کم از کم یہ کہہ دیں کہ LGBT (ہم جنس پرست) ہونا کوئی گناہ یا سزا نہیں۔‘‘

ہم جنس پرست افراد اس حوالے سے LGBT کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، جس میں ہم جنس پرست عورتیں، مرد، دونوں جنسوں کی جانب رغبت رکھنے والے اور اپنی جنس تبدیل کروا لینے والے شامل ہوتے ہیں۔ مُکاسا کو گزشتہ برس ہم جنس پرستی کا ’جرم‘ ثابت ہو جانے پر کچھ وقت جیل میں گزارنا پڑا تھا، تاہم بعد میں عدم شواہد کی بنیاد پر ان کی رہائی ممکن ہو پائی تھی۔

مُکاسا جو اپنے علاقے میں پرنسس ریحانہ کے نام سے بھی مشہور ہیں، کہتے ہیں، ’’یوگنڈا میں ہم جنس پرست ہونا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ مشتعل افراد کا کوئی ہجوم آپ پر حملہ کر دے، آپ کو قتل کر دیا جائے یا آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔‘‘

افریقہ کی 54 ریاستوں میں سے زیادہ تر میں ہم جنس پرستی کسی نہ کسی اعتبار سے جرم ہے۔ جنوبی افریقہ براعظم افریقہ کا وہ واحد ملک ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کو قانونی طور پر شادی کی اجازت ہے۔ کیتھولک چرچ کا اس بابت موقف یہ ہے کہ ’ہم جنس پرست ہونا کوئی گناہ نہیں، مگر ہم جنس پرستی کا ارتکاب کرنا گناہ ہے‘۔