افسر شاہی کے لئے دوہری شہریت: پھر زیرِ بحث
4 فروری 2022یہ بل بیورکریٹس کو دہری شہریت لینے سے روکے گا اور جن کے پاس یہ شہریت ہے، ان کو یہ ترک کرنے کے لئے ایک ٹائم فریم دیا جائے گا۔ اس مجوزہ بل کا کچھ حلقے خیر مقدم کر رہے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
نئی حکومت جرمن شہریت آسان بنائے گی اور دہری شہریت بھی ممکن ہو گی
واضح رہے کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے کیبنٹ ڈویژن کے سامنے یہ مسئلہ جمعرات کو اس وقت سامنے آیا جب کمیٹی نے سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کردہ ایک بل پر بحث کی، جسے سول سروس سرونٹس ترمیمی 2021 کا نام دیا گیا ہے۔
'بیوروکریٹس پر بُرا وقت‘
کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان کے بیووکریٹس پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُس قانون کو کالعدم قرار دے دیا جس کے مطابق پاکستان کی فیڈرل بیورکریسی کے افراد پلاٹ حاصل کرتے تھے اور اب ایک ایسے بِل پر ملک میں بحث ہورہی ہے جس کے ذریعے ممکنہ طور پر بیوروکریٹس کو دہری شہریت سے روکا جائے گا اور جن کے پاس یہ دہری شہریت ہوگی ان کو ایک ٹائم دیا جائے گا کہ وہ اس کو چھوڑ دیں۔
کمانے والے شہریت لیتے ہیں
ماضی میں پاکستانی افسر شاہی سے وابستہ افراد نے اس مجوزہ بل پر ملا جلا ردعمل دیا ہے۔ کچھ اس کا خیر مقدم کررہے ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس کا بہانہ بنا کر کچھ حلقے بیوروکریٹس کو بدنام کر رہے ہیں۔
وزارت صحت سے انیسویں گریڈ میں ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ اور ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے سابق سینیئر افسر ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ مسئلہ خالی بیوروکریٹس کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس قانون کا ہے، جس کے مطابق انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرشید کے مطابق اگر حکومت اس کو روکنا چاہتی ہے تو اس قانون کو ختم کر دے۔
ڈاکٹر عبدالرشید کا مزید کہنا تھا، ''ایک عام بیورو کریٹ کے لئے تو بیس تاریخ کے بعد گھر چلانا بھی مشکل ہوتا ہے، اگر وہ تنخواہ پر گزارہ کر رہا ہے تو اس کے لئے بڑی مشکلات ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی طرح غیر ملکی شہریت نہیں لے سکتا ہے، جنہوں نے خوب کھایا اور کمایا ہوتا ہے وہی غیر ملکی شہریت لیتے ہیں۔"
ترکی: 500,000 ڈالر بینک ڈیپازٹ لیرا میں تبدیل کر کے ترک شہریت حاصل کریں
بڑی بات
کئی سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر عبدالرشید کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ تر دوسرے ملک جانے والے بیوروکریٹس نے اچھا خاصا مال بنایا ہوا ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزارت سے حال ہی میں ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہونے والے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کسی دوسرے ملک کی شہریت لینے کے لیے آپ کو اچھے خاصے اثاثے ظاہر کرنے پڑتے ہیں، اس کے علاوہ ایک خطیر رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے، جو یہاں دبا کر پیسے بناتے ہیں ان کے لیے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ غیر ملکی شہریت لیں، ایک ایماندار بیوروکریٹ کے لیے ساری زندگی نوکری کرنے کے بعد اگر وہ اپنا گھر بھی بنا لے تو بہت بڑی بات ہوگی۔"
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں بیوروکریٹس کو مختلف بہانوں سے بدنام کیا جاتا ہے۔ "ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کوئی ایک ایسی پالیسی بنائی جس میں بیوروکریٹس دوسرے ممالک کی طرف نہ دیکھیں۔ ان کے مطابق ملک میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر شادیانے بج رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بیروکریٹس کوئی پلاٹ نہیں لے سکتا۔ " سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیس چالیس سال کی سروس کے بعد ایک ایماندار بیوروکریٹ کو کم از کم یہ آسرا تو ہوتا ہے کہ اس کو سر چھپانے کی جگہ ملے گی اس فیصلے سے بے ایمان بیوروکریٹس کو کوئی فرق نہیں پڑے۔"
دوہری شہریت والے کرپٹ نہیں
تاہم کچھ بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ دوہری شہریت لینا کسی بھی فرد کا نجی معاملہ ہے اور حکومت کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ حکومت کو متعلقہ بیوروکریٹ کی کارکردگی پر نظر رکھنا چاہیے اور اسی کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔
بھارت: شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش؟
ریٹائرڈ سرکاری افسر منیر احمد جان کا کہنا ہے کہ دوہری شہریت لینا غیر قانونی نہیں ہے تو پھر اس پر اعتراض کیسا۔ منیر احمد جان کے بقول زیادہ تر بیوروکریٹس کو دوہری شہریت اس وجہ سے لینی پڑتی ہے کہ وہ زمانہ طالب علمی میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں، جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بہت سارے اس دوران شادی بھی کر لیتے ہیں۔ پھر گھر کی مجبوری اور بچوں کی وجہ سے بھی دوہری شہریت لینی پڑتی اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ وہ بے ایمان ہے۔"