افغانستان: افیون جیسے نقدی
6 اپریل 2012افغانستان میں افیون کو نقد رقم سمجھا جاتا ہے، جس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ وہاں بین الاقوامی فوج کی موجودگی میں بھی اگر اس پیداوار میں کمی نہیں ہو پائی، تو اس کے انخلاء کے بعد کس قسم کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ افغانستان اور غیر ملکی حکومتوں کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء سن 2014ء میں ہونا ہے اوریہی برس وہاں عام انتخابات کا بھی ہو گا، ایسے میں غیر یقینی کی صورت حال افیون کی پیدوار میں انتہائی اضافے کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔ افغانستان میں افیون کو ایک طرح سے اب نقد کرنسی یا سونے کے طور پر ہی سمجھا جانے لگا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ افغان باشندے افیون کو اس امید پر جمع کر رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اسے من چاہی قیمتوں پر فروخت کریں گے۔
روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم کے سربراہ Jean-Luc Lemahieu نے کہا، ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان میں لوگ اچانک افیون کی جانب یوں بھاگ رہے ہیں، جیسے یورو کرنسی کے نفاذ سے پہلے ہم سوئس فرانک کے لیے دوڑتے تھے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس سے افغانستان میں ایک سلامتی سے عاری مستقبل کی جانچ کی جا سکتی ہے، جس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔
واضح رہے کہ افغانستان دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی افیون کا 90 فیصد پیدا کرتا ہے اور اسی سے ہیروئین تیار کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2011ء میں افغانستان میں افیون کی قیمت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ اس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کو بھی ملا۔ گزشتہ برس افغانستان میں پیدا ہونے والی افیون کی کمائی پچھلے برسوں کی نسبت دوگنی دیکھی گئی۔ گزشتہ برس افیون سے ہونے والی آمدنی تقریبا ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر رہی، جو افغانستان کی مجموعی قومی پیداوار کے تقریبا 15 فیصد کے برابر تھی۔
at/ss ( Reuters)