افغانستان: امریکی سفارت خانے کے ارکان کی واپسی شروع
28 اپریل 2021امریکی محکمہ خارجہ نے 27 اپریل منگل کو اپنے باقی عملے میں سے کچھ کو حکم دیا ہے کہ وہ کابل میں اپنا سفارت خانہ چھوڑ دیں۔ امریکا اس وقت افغانستان سے اپنی فوج کو ملک سے باہر نکالنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
افغانستان میں کار گزار امریکی سفارت کار روز ولسن نے اس حوالے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ فیصلہ، ''کابل میں بڑھتے ہوئے تشدد اور خطرات کی رپورٹ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ محکمہ خارجہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے کابل سفارت خانے کے کچھ ارکان متاثر ہوں گے اور اس پر فوری طور پر عمل ہوگا۔''
تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو سروسز مہیا کی جا رہی تھیں ان میں کوئی کمی نہیں کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین میں کمی، ''اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ امریکی سفارت کاری اور افغانستان کے لیے حمایت پائیدار، مضبوط اور موثر ہو گی۔''
امریکی محکمہ خارجہ کا یہ حکم ایسے وقت آیا ہے جب دو روز قبل ہی افغانستان میں امریکی فوج کے اعلی عہدیدار جنرل آسٹن ملر نے افغانستان میں آپریشن بند کرنے اور سکیورٹی کی ذمہ داری افغان فورسز کو لینے کی بات کہی تھی۔
دو عشرے بعد افغانستان سے انخلا
امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں اس وقت موجود تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجی آئندہ 11 ستمبر تک نکل جائیں گے۔ یہ امریکی ریاست نیو یارک کے ٹوئن ٹاور پر دہشت گرادنہ حملے، جس میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے،کے بیس برس مکمل ہونے کے موقع پر ہوگا۔
حالانکہ طالبان کے ساتھ ایک امریکی معاہدے کے تحت بیرونی فوجیوں کا انخلا یکم مئی تک ہونا تھا جس پر عمل نہیں ہو سکا۔ جنرل ملر کا تاہم کہنا ہے کہ انخلا کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی کا کہنا ہے کہ امریکا کابل میں اپنا سفارت خانہ فعال رکھنے کے تئیں پر عزم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمارا ارادہ ہے کہ آگے چل کر ہم افغانستان میں اپنا سفارت خانہ برقرار رکھیں۔ لیکن وہاں فوجیوں کی تعداد کم سے کم ہو گی... بس اتنی کہ جو سفارتخانے کے دفاع کے لیے ضروری ہو۔''
طالبان کے ساتھ اب بھی کوئی معاہدہ نہیں ہو پا یا
افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان اب تک کسی معاہدے پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ اس حوالے سے بات چیت بھی کچھ دنوں سے تعطل کا شکار ہے اور اس کے مستقل قریب میں کسی پیش رفت کے امکان بھی کم ہیں۔ اسی وجہ سے اس بات کی تشویش بڑھ گئی ہے کہ امریکا اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کہیں افغانستان میں خانہ جنگی نہ شروع ہو جا ئے۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے سینیٹ کی ایک میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ اگر انسانی حقوق کا احترام نہ ہوا، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کا خیال نہ رکھا گیا تو، تو امریکی امداد ختم بھی کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ہم نے بتا دیا ہے کہ اگر انہیں امریکی امداد چاہیے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری انہیں تسلیم کرے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی خراب شبیہ ختم ہو، تو پھریہ سب پہلو اس بات سے متاثر ہوں گے کہ وہ اپنی عوام کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہیں، خاص طور خواتین اور بچوں کے ساتھ۔''
ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے حکومت سے اقتدار چھین کر اس پر قبضہ کر لیا تو انہیں تنہائی، علاقائی مخالفت، پابندیوں اور عالمی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)