’افغانستان اور پاکستان اختلافات افہام و تفہیم سے حل کریں‘
15 جون 2017اس عالمی ادارے کے سربراه نے گزشته روز جنگ زده افغانستان کے اپنے اولین دورے کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر روزه رکها ہوا تها۔ کابل پہنچنے کے فوری بعد وه شہر کے نواحی علاقے میں واقع بے گهر افراد کی بستیوں میں گئے اور ان کے مسائل سنے۔
کابل اور اسلام آباد تعلقات میں بہتری کے لیے ورکنگ گروپ
پاک سفارت کاروں کی افغانستان میں حراست، تعلقات میں پھر تلخی؟
اقوام متحده کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جاری خونریزی اور بدامنی نے حال ہی میں مزید 80 ہزار افراد کو گهر بار چهوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ افغان حکومت کو ملک کے بتیس میں سے اکیس صوبوں میں مسلح بغاوت کا سامنا ہے، جہاں سے ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبو ہوئے ہیں۔
اس دورے کے موقع پر گوٹیرش نے کہا، ’’وه تمام فریق جو افغان تنازعے سے وابسته ہیں، ان سب کو مل کر یه سمجهنا چاہیے که اس جنگ کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں، ہمیں سیاسی حل کی ضرورت ہے، ہمیں امن کی ضرورت ہے۔‘‘
بعد ازاں انہوں نے کابل کے صدارتی محل میں صدر محمد اشرف غنی سے ملاقات کی۔ افغان صدر نے انہیں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ہوئی اپنی حالیه ملاقات کے بارے میں بتایا۔ اشرف غنی نے کہا ہے کہ کابل اور اسلام آباد نے ان تمام گروہوں کے خلاف اقدامات پر اتفاق کرلیا ہے، جو نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے لیے، بلکہ تمام خطے کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
گزشته ہفتے غنی نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایک غیر اعلانیہ ملاقات کے حوالے سے اپنے ٹوئٹر پیغامات میں لکها تها کہ دونوں ممالک نے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے جو مسائل کا حل تلاش کرے گا، اس گروپ کا پہلا اجلاس کابل میں منعقد ہوگا۔
کابل حکومت کے چیف ایگزیکیٹیوعبداللہ عبداللہ نے بهی سیکرٹری جنرل گوٹیرش کے ساتھ ملاقات میں دیگر امور کے علاوہ پاکستان کا بهی ذکر کیا۔.انہوں نے کہا، ’’خطے کی سطح پر ہماری بڑی مشکل پاکستان کے ساتھ ہے تاہم حال ہی میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے، جس سے کچھ امید پیدا ہوئی ہے که دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکے گی۔‘‘ گزشته ماه دارالحکومت کابل میں ہوئے ٹرک بم حملے کی ذمه داری طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک پر ڈالی گئی تهی، جسے مبینه طور پر پاکستانی خفیه ادرے آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے، تاہم پاکستان اس الزام کو مسترد کرچکا ہے۔
اپنی مصروفیات کے اختتام پر اقوام متحده کے سیکرٹری جنرل نے امید ظاہر کی ہے کہ جنرل اسمبلی آئنده ہفتے انسداد دہشت گردی کے نئے نظام کی منظوری دے دے گی، جس کی مدد سے رکن ممالک کی بہتر مدد کی جاسکے گی۔
انہوں نے پاکستان اور افغانستان پر بهی زور دیا که وه اپنے اختلافات افہام و تفہیم سے حل کریں۔ ان کے بقول جو کوئی ملک بهی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے، وه درست کام نہیں کر رها۔ ’’سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے یه میری ذمه داری ہے که میں اپنے ان دونوں ممالک [پاکستان اور افغانستان] کے مابین تعلقات کے بہتری کے لیے اپنے دفتر کا استعمال کروں تاکه دونوں اس قابل ہوسکیں که مل کر دہشت گردی کے خطرے سے نمٹ سکیں۔‘‘