افغانستان: سفارتی کوشش ضروری، ایلکے ہوف
23 جولائی 2010خاتون رکن پارلیمان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو میں افغانستان کی صورتحال پراپنی رائے کا اظہارکیا۔
ڈوئچے ویلے: آپ نے سرد جنگ کے دوران تشکیل دی گئی کانفرنس آن سیکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ 'CSCE' کی طرز پر افغانستان کے لئے ایک سکیورٹی کانفرنس کی تجویز پیش کی ہے۔ کیا آپ اپنی اس تجویز پر مزید کچھ روشنی ڈالیں گی؟
ایلکے ہوف: میں اس خطے میں آتی جاتی رہتی ہوں، وہاں سلامتی کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت پربھی میری نگاہ ہے اور بدقسمتی سے،عدم استحکام کئی سالوں سے موجود ہے، میں اس نتیجے پر پہنچ گئی ہوں کہ ہمیں ایک بڑی "سفارتی کوشش" کی ضرورت ہے۔ اس کوشش میں یقینی طور پر افغانستان کے پڑوسی ممالک کو شامل کرنا اہم ہے کیونکہ ان کا افغانستان میں اثر ورسوخ موجود ہے۔ میرے خیال میں پڑوسی ممالک کو ساتھ لئے بغیر خطے میں دیرپا استحکام کا حصول ممکن نہیں۔ اسی لئے، میرے خیال میں CSCE کے تحت جو کام یورپ میں کیا گیا اسی طرز پر اُس خطے میں استحکام کے لئے تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے: آپ کے خیال میں کون کون سے ملکوں کو اس کانفرنس میں حصہ لینا چاہیے؟
ایلکے ہوف: بلا شبہ پاکستان، بھارت، چین، روس، ایران، ازبکستان اور تاجکستان یعنی تمام ہمسایہ ممالک، جو خوشحال اور مستحکم افغانستان کے متمنی ہیں۔ اور یقینی طور پر یورپی یونین اور امریکہ بھی، مگر بنیادی طور پر افغانستان کے پڑوسی ممالک۔
ڈوئچے ویلے: آپ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران کے کردار کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا گیا، کیسے؟
ایلکے ہوف: جہاں تک ایران کا تعلق تو اس سے متعلق بعض سیاسی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں، جیسے جوہری معاملہ اور اس باعث بعض مشترکہ مفادات پس پردہ چلے گئے ہیں، جیسے کے منشیات کی سمگلنگ۔ اس صورت حال کا ایرانی معاشرے پر بہت اثر ہے اور پاکستان کے اپنے سلامتی کے مفادات ہیں۔ ان سب کو سنجییدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم، یعنی مغربی یورپی ممالک یا امریکہ کوایک دن افغانستان چھوڑنا ہو گا۔ مگر پڑوسی ممالک نے وہیں رہنا ہے اسی لئے ہمیں مستحکم افغانستان کے لئے وہاں مشترکہ مفادات کی نشاندہی کرنا ہو گی۔
ڈوئچے ویلے: ایسے کسی منصوبے پر عملدرآمد کیسے ممکن ہے، جب ہم جانتے ہوں کہ امکاناً امریکہ ایران کو ساتھ رکھنا پسند نہیں کرے گا اور شاید پاکستان بھارتی اثر ورسوخ کو قبول نہ کرے؟
ایلکے ہوف: ہمیں اپنے دوستوں کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنا ہوگی، کیوں کہ یہ ایک طویل المدتی منصوبہ ہے۔ جب میں ماضی کی جانب دیکھتی ہوں تو یورپ میں بھی اس عمل کے حوالے سے خاصی بے دلی تھی، بالخصوص امریکہ کی جانب سے کیوں کہ اس وقت سابق سوویت یونین کے حوالے سے کافی تناؤ موجود تھا۔ مگر میں سمجتھی ہوں کہ سارےخطے میں امن و خوشحالی کے لئے سفارتی اور سیاسی حل کی جانب بڑھنا ہوگا جو ظاہر ہے کہ ہر فوجی کارروائی کا اختتام ہوتا ہے، تو ہمیں اپنے ساتھیوں کو بھی قائل کرنا ہوگا۔
ڈوئچے ویلے: آپ کے خیال میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
ایلکے ہوف: اس طرز کا عمل شروع کرنے کے لئے سب سے پہلے ان مرکزی معاملات کی شناخت اور نشاندہی ضروری ہے جن کا حل خطے کے لئے ناگزیر ہے اور وہ نکات مذاکراتی میز پر موجود ہوں۔ جیسے کہ مستحکم افغانستان کا حصول کیسے ممکن ہے؟ ہم افغانستان کو کیسے اس قابل کرسکتے ہیں کہ وہ سلامتی کی ذمہ داریاں خود سنبھالے؟ پڑوسیوں کی جانب سے کیا معاونت کی جاسکتی ہے؟ ہم منشیات کے مسئلے پر کس طرح قابو پاسکتے ہیں؟ انسانی حقوق کی صورت حال کو کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے؟ یہ یورپ میں بھی ایک مسئلہ تھا جسے ابتداء میں شک و شبے سے دیکھا گیا مگر بعد میں سابق سوویت بلاک کے ساتھ مذاکرات کا اہم نکتہ بنا۔ تو میرا خیال ہے کہ ایسے عمل کو شروع کیا جائے جس میں مشترکہ مفادات پر مذاکرات کئے جا سکیں، بجائے اس کے کہ ان معاملات پر بات ہو جو تقسیم کی وجہ بن رہے ہوں اور اعتماد و بھروسہ بڑھانا اہم ہے۔ میرے خیال میں اس خطے میں پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے۔
انٹرویو: دیشا اُپل
ترجمہ: شادی خان سیف، عابد حسین
ادارت: گراہم لوکاس